ہن تھی فریدا شاد ول جھوکاں تھیسن آباد ول
Pak Urdu Installer

Sunday 22 September 2013

نی سیو اساں نیناں دے آکھے لگے


نی سیو اساں نیناں دے آکھے لگے

اے دوست  ہم آنکھوں کے کہنے میں آگئے

سیو   سہیلی  کو  کہتے ہیں۔   انسانی فطرت  ہے  کہ  انسان اپنی  راز کی باتیں صرف اپنے  گہرے دوستوں  اور سہیلیوں سے  کہتے ہیں۔ حضرت شاہ حسین  ؒ کی لازوال  شاعری کا یہ ایک خاص اسلوب  اور خاص استعارہ  ہے ۔  یعنی ایک الہڑ  مٹیار  اپنی گہری سہیلی سے اپنے دل  کے راز  کہہ رہی  ہے ۔  
جیسا  کہ  اس  شعر میں   میں سہیلی کو  مخاطب کر  کے فرمایا ہے  کہ " نی سیو"  ہم  آنکھوں کے  کہنے  میں آ گئے ۔ آنکھ  اللہ  تعالیٰ  کا  بہترین  تحفہ ہے جو اس  نے انسان  کو دیا  لیکن  اگر  دیکھا جائے  تو یہی بہترین  تحفہ  ایک کڑا امتحان  بھی ہے ۔  انسانی  علم  کا بیشتر  حصہ صرف آنکھوں  کی بدولت ہے ۔ اور یہی  علم ہی  ایک بے  حد  کڑی  آزمائش ہے ۔  ایک پیدائشی اندھا  صرف لفظ  خوبصورتی  سے واقف ہو سکتا  ہے ۔  لیکن آنکھ  والا ہر  قسم کی خوبصورتی  اپنی آنکھ سے دیکھ سکتا  ہے ۔  اندھے  نے  چونکہ کچھ دیکھا ہی نہیں۔  اس لیے وہ دیکھنے اور مابعد  اثرات سے مامون رہتا ہے ۔ مگر  آنکھ والے  کیلئے  اکثر اوقات  دیکھ  لینا  عذاب  بن جاتا ہے ۔  اور اگر  دیکھنے  کے مابعد  اثرات  کی زد  میں آ جائے  تو  دوہرا عذاب درپیش ہے ۔
 خاکسار  کی ناقص فہم  کے مطابق یہاں آنکھوں  کے کہنے میں آنے کے دو مطلب نکلتے ہیں۔
1:۔ اپنی  آنکھوں  کے کہنے میں آ جانا۔
2:۔کسی اور کی آنکھوں  کے کہنے میں آ جانا۔
پہلی صورت کی مثال  ایسے  ہے  کہ   "الف "  نے  اپنی  آنکھوں  سے "سین" کو دیکھا ۔  الف  کی آنکھوں  نے     دماغ کو بتایا  کہ  میں  نے تصویر ِ کائنات  کی  سب سے رنگین  خوبصورتی دیکھی ہے ۔  اور الف  کے  دل  و دماغ پہ  "سین "  کی خوبصورتی  یوں  چھائی کہ  پیار  کی کونپل پھوٹ  پڑی ۔  اور آگے  کی کہانی کوئی  نئی نہیں۔
یہاں دل اور دماغ  کو  طعن نہیں کیا جا سکتا ۔ کیونکہ انہوں  نے خود  نہیں دیکھا ۔  صرف دیکھنے جانے  کا احوال  جانچا(پروسس کیا)۔  یہ کارستانی آنکھوں  کی تھی ۔ کہ نہ صرف انہوں نے دیکھنے کی   شرارت کی بلکہ دل و دماغ کو بھی ورغلایا ۔ 
دوسری صورت یعنی  کسی  دوسرے کی آنکھوں کے کہنے میں آنے کی مثال  یوں  ہوگی ۔ کہ "الف " جوگ کے  اثرات  کے  زیرِ اثر  ہونے کی وجہ سے   اپنی  آنکھوں کے کہنے  میں نہ آیا۔ اور  دیکھا گیا  سب کچھ نظر انداز  کیا ۔  مگر  یہاں  "سین" کی  آنکھوں  نے شرارت کی  اور آنکھوں  نے  آنکھوں  سے بات کی ۔ آنکھوں کی بھی ایک زبان ہوتی ہے ۔  جیسا کہ بقول کسے :۔ جھکیں  تو حیا۔  اٹھیں  تو دعا ۔  ملیں  تو ادا ۔  اور پھریں  تو قضا۔۔۔۔  اور سمجھنے والے سمجھتے ہیں  کہ آنکھوں  جب بولتی ہیں  تو بڑے سے بڑا جوگی  بھی مزاحمت کے قابل نہیں رہتا۔ اورپھر وہی ہوتا ہے جو ہمیشہ سے ہوتا  آیا  ہے ۔

جنہاں پاک نگاہاں ہویاں
کدی نئیں  جاندے ٹھگے

جن کی نگاہیں پاک ہیں
وہ کبھی فریب نہیں کھاتے


اسلام  میں  آنکھوں پر  قابو رکھنے کی بہت  تاکید  ہے ۔  پہلی نظر  انسان  کی اور دوسری  نظر شیطان کی  کہی گئی ہے ۔ آنکھوں کے کہنے میں آنے سے  بچاؤ  کیلئے انسان  کو  آنکھیں  جھکا کر  رکھنے کا حکم دیا گیا  ہے ۔
نگاہ پاک ہونے کا مطلب آنکھ  پر  دماغ  کا قابو  ہونا  ہے ۔  ظاہر  ہے جب  نگاہ  دماغ  کے قابو میں  ہوگی  تو وہ  دماغ کو ورغلا نہیں سکے  گی ۔ اور نتیجے میں انسان ممکنہ  فریب  سے  بچ جائے  گا۔  کیونکہ آنکھوں  کی صلاحیت  صرف  ظاہر  بینی  ہے ۔ یہ صرف ظاہر  دیکھ سکتی  ہیں۔        




کالے پٹ نہ چڑھی سفیدی
کانگ نہ تھیندے بگے


کالے پٹ پر سفیدی نہیں چڑھتی
کوے کبھی سفید نہیں ہو سکتے

اس شعر میں فطرت   نہ بدلنے والا نظریہ بیان ہوا  ہے ۔ جیسا کہ شیخ سعدی ؒ  بھی فرماتے ہیں(گلستانِ سعدی ۔۔۔ بابِ  اول ۔۔۔ در سیرت   پادشاہاں)
عاقبتِ گرگ زادہ گرگ شود
گر چہ با آدمی بزرگ شود
بھیڑئیے  کا بچہ فطرت میں بھیڑیا ہی ہے
چاہے  آدمی کے ساتھ  رہتا رہتا  بوڑھا  ہو جائے 
 حضرت  بابا بھلے شاہ ؒ نے بھی کچھ اسی قسم کا نکتہ بیان فرمایا ہے :۔ 
کوڑے کھوہ  مٹھے  نہ ہوندے، بھانویں سہ من  کھنڈ پائیے
سپاں  دے پتر  متر نہ ہوندے ، بھانویں  چنیاں دودھ پیائیے 
کڑوے  کنویں  (مستقل)میٹھےنہیں ہوتے چاہے  منوں  چینی ڈال دی جائے
سانپوں  کے بچے ( سنپولیے) کبھی  دوست نہیں ہوتے  چاہے چنیدہ دودھ  پلاتے  رہو
ہاں یہ ایک الگ بات ہے کہ ماحول  کے زیر اثر  فطری  جبلت   ہو سکتا ہے دبی رہے ۔ لیکن موقع  ملتے ہی  وہ   جبلت  اپنے آپ کو عیاں کر دیتی ہے ۔ اس  لیے کہا جا سکتا ہے  کہ  فطرت (جبلت)  کا نہ بدلنا ایک مسلمہ حقیقت ہے ۔ جیسے کالے پٹھ  پر  قدرتی سفیدی کبھی نہیں آ سکتی ۔  اور کوا کبھی سفید  نہیں ہو سکتا ۔ مصنوعی  طور پر  ان  کو سیاہ و سفید  کربھی دیا جائے  تو وقتی طور پر ان کا اصلی  رنگ مصنوعی رنگ  کے نیچے دبا رہے گا ۔ لیکن جونہی پانی  یا کسی  اور چیز  کے اثر  سے مصنوعی رنگ اترا تو  اصلی رنگ پھر  اپنی  بہار دکھانے  لگے گا۔ 
  

شاہ حسین شہادت پاون
جو مرن متراں دے اگے

شاہ حسینؒ وہ شہید کا درجہ پاتے ہیں
جو دوستوں کے آگے جان دیتے ہیں

اس  شعر دوستی پر  جان دینے والوں  کو شہید کہا گیا ہے ۔ بے شک دوستی  کی  خاطر  کچھ بھی کر گزرنے والے  عظیم انسان ہوتے ہیں۔ انسان  اور اللہ  کا جو رشتہ  ہے اس کے ناطے  اللہ کی راہ میں جان دینے والوں  کو شہید  کہا جاتا ہے ۔ اور شہید  کے بارے  میں اللہ  تعالیٰ  کا فرمان ہے  کہ  شہید  کو مردہ  نہ کہو  بلکہ وہ  زندہ ہیں۔ (صرف یہی نہیں)بلکہ وہ اپنے  رب کے پاس  رزق بھی پاتے ہیں۔
اس قرآنی نص  کی رو سے  کہا جا سکتا ہے کہ حضرت شاہ حسین  ؒ  نے جاوداں زندگی کا راز بتایا ہے  ۔ 

Saturday 14 September 2013

سمجھ ندانڑے


سمجھ ندانڑے ، تیرا ویندا وقت وہاندا


اے نادان  سمجھنے کی کوشش کر، تیرا وقت  بہتا جاتا ہے

ایہہ دنیا دو چار دیہاڑے، ویکھدیاں لد جاندا


یہ دنیا  دو چار دن ہے ، دیکھتے ہی دیکھتے  لد جائے گی

دولت  دینا ،مال ، خزینہ ، سنگ نہ کوئی لے جاندا

دولت ، جائیداد، مال ، خزانے ، کوئی ساتھ نہیں لے جاتا

مات ، پتا ، بھائی ، ست ، بنتا ، نال نہ کوئی جاندا

ماں ، باپ ، بھائی ،  بیٹا ، بیوی  کوئی ساتھ نہیں جاتا

کہے حسین فقیر نمانڑا ، باقی نام سائیں دا رہندا

بے چارا فقیر حسین کہتا ہے ، صرف اللہ کا نام ہی باقی رہنے والا ہے

Monday 2 September 2013

پیارے لال کیا بھروسا دم دا

پیارے لال ! کیا بھروسا دم دا

پیارے لال !  زندگی کا کیا بھروسا؟

پیارے لال !  کا تخاطب  ہی  صوفیانہ شاعری  کے آفاقی  ہونے  کا ایک چھوٹا سا ثبوت ہے ۔  صوفیا کرام  نے اپنی عظیم شاعری میں  کسی مخصوص مذہب کے پیرو کاروں  یا کسی خاص طبقے کو  موضوع اور  مخاطب  نہیں بنایا ۔   صوفیا کرام کا درس خالق کی محبت اور اس کی مخلوق ہونے  کی نسبت انسانیت   سے پیار ہے ۔  چاہے وہ کسی  بھی خطے کا ہو  ، کسی بھی مذہب کا پیروکار ہو۔  ایک صوفی کی نظر میں وہ  صرف اللہ  کی مخلوق کے طور پر  معزز اور محترم ہے ۔ اور یہی وہ قدر ِ مشترک  ہے  جو   حضرت شاہ  حسینؒ  ، حضرت بابا بھلے شاہ ؒ ، حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی ؒ ، حضرت بابا فرید الدین  مسعودؒ  ، حضرت خواجہ  غلام  فرید  ؒ ،  میاں محمد بخش ؒ ،  رحمان  بابا ؒ   جیسے عظیم  مسلم  صوفیا کرام  کے علاوہ بابا  گرو نانک ،  بھگت کبیر کی  شاعری   میں ملتی ہے ۔
نہایت پیار  سے مخاطب کر کے زندگی  کی بے ثباتی   کو واضح  کرنے کیلئے سوالیہ  انداز اختیار  کیا گیا ہے ۔ کہ زندگی کا کیا بھروسا؟؟
اور یہی  بڑی  شاعری کا حسن   اور بڑے شاعر کی عظمت  ہے کہ وہ اپنے  نظریات  اور خیالات کسی پر ٹھونستا نہیں۔ بلکہ  سوچ  کے در وا کرنے کی تحریک دے کر  انسانی  ذہن  کو مہمیز  کرتا ہے ۔یہاں پر  شاہ  حسین  ؒ  اگر چاہتے تو سیدھا سیدھا کہہ سکتے تھے   کہ زندگی کا  کوئی  بھروسا نہیں۔  یہ بے ثبات ہے ۔  مگر  انہوں  نے انسانی  ذہن کو سوچنے  کیلئے ایک رخ دیا ۔   اس سے پوچھا  کہ سوچو  زندگی  قابلِ بھروسا  ہے یا نہیں۔ اس  سوال  کا جواب ڈھونڈنے  کیلئے  ہر دماغ  اپنی اپنی  وسعت کے مطابق سوچے گا ۔  کہ اگر زندگی قابل ِ بھروسا  ہے تو کیسے  ؟؟؟  اور اگر  بھروسا  کہ قابل نہیں تو وہ کون  سی وجوہات  ہیں جن  کی بنا پر  زندگی کو قابلِ بھروسا  نہیں مانا جا سکتا۔؟؟؟
قرآن مجید  کابھی یہی دلنشین انداز ہے ۔ بلکہ قرآن تو اندھا دھند  تقلید  کی مخالفت کرتا ہے ، اور کہتا ہے  کہ  دیکھو، پرکھو، سوچواور پھر جو سچ  ہو اس پر ایمان لاؤ۔قرآن مجید  حقائق،  تاریخی  واقعات  اور ان کے تجزیے  پیش کرکے  غور و فکر  کی دعوت دیتا ہے ۔  اور  عین  یہی اسلوب  آپ کو دنیا کے ہر بڑے ادب میں ملے گا۔ اور یہی انداز دیوانِ غالب ؔ کا  ہے ۔ جس  کی وجہ سے مجھ جیسے سر پھرے اسے الہامی کلام مانتے ہیں۔         

اُڈیا بھور ، تھیا پردیسی ، اگے راہ اگم دا

بھنورا  اڑا اور پردیسی ہوا ، آگے کا راستہ مزید آگے کا ہے 

زندگی  کے  ناقابلِ بھروسا ہونے کی مثال کے طور پر  یہ بات کہی ہے ۔ کہ  جب بھنورا  پھول سے اڑتا ہے تو پھر  وہ  پیچھے مڑ کر  اسی پھول  پر واپس  نہیں آتا ۔  کیونکہ آگے اسے  ایک  کے بعد ایک پھول ملتے جاتے ہیں۔ اور  وہ آگے ہی آگے کے سفر  پر روانہ رہتا ہے ۔  اسی  طرح  پیدائش  سے موت تک  کے دورانیے  میں انسانی  زندگی  کا سفر  آگے سے آگے  ہی جاری رہتا ہے ۔ وقت کبھی پیچھے  نہیں مڑتا ۔ انسان اپنا بچپن گزار کر جوانی  میں اور جوانی سے بڑھاپے میں داخل ہوتا ہے ۔ لیکن  کبھی ایسا نہیں ہوا کہ انسان جوانی سے دوبارہ بچپن میں آجائے ۔   اور نہ ہی کبھی بوڑھا پھر سے جوان ہو سکتا ہے ۔  حتیٰ کہ موت  اسے آن دبوچتی ہے۔ لیکن  موت  بھی کوئی اختتام  نہیں ہے ۔ بلکہ موت تو  ایک  سنگِ  میل  ہے  ،اس کے بعد  بھی ایک سفر  ہے ۔  جسم  اسی دنیا  کا تھا  اسی دنیا میں رہے گا  جب کہ روح کو برزخ  کا سفر  کرنا  ہے ۔  اور برزخ  سے آگے بھی سفر  ہے ۔  یعنی بقول ِ اقبال  :۔ " ابھی عشق  کے امتحاں  اور بھی ہیں"

کوڑی دنیا ، کوڑا پسارا ، جیوں موتی شبنم دا

دنیا جھوٹ ہے ، دنیا داری جھوٹ ہے ، جیسے شبنم کا موتی

اس مصرعے میں  دنیا کابے حقیقت ہونا  ثابت کیا  گیا ہے ۔  اہلِ  نظر  کے نزدیک  یہ دنیا اور مافیہا   محض فریبِ نظر ہے ۔  اس کی حقیقت  کچھ نہیں۔یہ دنیا صرف  ایک سراب  ہے  جھوٹ ہے ۔  دنیا  داری  تمام کی تمام  جھوٹ  ہے جیسا  کہ  غالب  ؔ  کا بھی یہی فرمان ہے :۔
ہے غیب  ِغیب ،   جس کو   سمجھتے ہیں ہم شہود
ہیں    خواب میں ہنوز،جو جاگے ہیں خواب میں
لیکن دنیا کو  تو ہم اپنی آنکھوں  سے  دیکھتے ہیں، اسے  محسوس بھی کرتے ہیں پھر یہ کس طرح  جھوٹ  ہو سکتی ہے  ۔؟؟  اس کی مثال شبنم  کا قطرہ ہے ۔  شبنم کے قطرے کو آنکھیں  دیکھتی ہیں ۔  دیکھنے میں چمکدار  موتی نظر آنے والا وہ  قطرہ محض چند منٹ کا  مہمان  ہوتا ہے ۔  اسے  چھوا جا سکتا ہے  لیکن چھوتے ہی وہ موتی ختم ہو جاتا  ہے ۔  نہ بھی چھوا جائے تو  سورج  کی تمازت  سے  چند منٹ میں معدوم ہو جاتا ہے ۔  بقول  غالب  :۔
پرتوِ خور سے ہے شبنم کو فنا کی تعلیم
میں بھی ہوں ایک عنایت کی نظر ہونے تک
عین  اسی  طرح  یہ دنیا  اور دنیا داری  اپنے تمام  تر وجود  کے باوجود  در حقیقت  بے حقیقت ہے ۔ اور صرف   موت  کی ہچکی  ہی اسے  معدوم  کرنے کو  کافی  ہے ۔  اور قرآن مجید  ہمیں میدانِ حشر  میں اٹھ کھڑے ہونے والوں  کے الفاظ سناتا ہے کہ وہ کہیں گے   ابھی تو ہم سوئے تھے یہ کس نے ہمیں  جگا دیا ۔  اور دنیا  میں ہم نے واقعی زندگی گزاری ہے یا محض خواب  میں دیکھا  ہے۔ اگر   ایک سو سال سے زائد عمریں  گزار کر جانے والے  بھی دنیا کی زندگی کو  خواب سمجھیں گے تو پھر  سمجھنا کوئی مشکل نہیں  کہ  یہ ہستی نہیں عدم ہے۔
  اس  نظریے کی بہترین ترجمانی ہمیں دیوانِ غالبؔ  میں   جابجا ملتی  ہے ۔
ہستی کے مت فریب  میں  آ جائیو  اسدؔ
عالم تمام حلقہ  دامِ خیال ہے 
جز  نام ،نہیں صورتِ عالم مجھے منظور
جزوہم  ،نہیں ہستیِ  اشیا  ء ،میرے آگے


جینہاں میرا شوہ رجھایا ، تینہاں نوں بھو جم دا

جنہوں  نے میرے محبوب کو رجھایا ، انہیں موت کے فرشتے کا کیا ڈر

اس زندگی  کا مقصد  کیا  ہے ۔ جس  نے یہ سمجھ لیا اور پھر  اس مقصد  کو  پورا کرنے کی کوشش کی  ۔  اس  نے اپنی ذمہ داری   پوری  کی ۔  اور جیسا کہ  شیخ سعدی  ؒ فرماتے ہیں:۔ "آں را  کہ حساب پاک است ۔  از محاسبہ چہ باک است"(جس کا حساب پاک ہے ۔ اسے محاسبہ کا  کیا ڈر)
اگر  کچھ دیر  کیلئے کمرہ امتحان کا منظر اپنے ذہن  میں لائیں تو واضح  ہو جاتا ہے ۔ کہ لائق طالب علم  پرچہ حل کرتے وقت  کسی خوف کا شکار نہیں ہوتے ۔ اور  ان کی کوشش  ہوتی ہے کہ اس  مخصوص وقت میں اپنا پرچہ حل کر لیں۔  اور جیسے ہی ان کا  پرچہ حل ہوتا ہے   وہ  اپنا جوابی پرچہ نگران  کو پکڑا کر  خوشی سے چلے جاتے ہیں۔ جبکہ ایسے  طالب علم جنہوں  نے  اپنا تعلیمی  سال غیر  متعلقہ سر گرمیوں اور  کھیل کود میں گزار  دیا ہو ، ان  کے چہرے  سے  ٹپکتی فکرمندی دیکھنے  کیلئے کسی خورد بین  یا دور بین کی ضرورت نہیں ہوتی۔  ان  کو 3  گھنٹے کا وقت  بھی بہت کم ہوتا ہے۔  اور جب تین گھنٹے بعد ان سے پرچہ لیا جاتا ہے تو تب بھی  ان کا  پرچہ  مکمل  حل شدہ نہیں ہوتا ۔  ایسے طالب علموں  کو  نتیجہ کا دن  آنے تک  یہی خوف  رہتا ہے کہ پتا نہیں پاس ہونگے بھی یا نہیں۔
عین اسی  طرح  یہ دنیا بھی  امتحان گاہ ہے ۔  لائق  بندے اور اللہ کے سچے طالب  اپنی توجہ  اپنے امتحانی پرچے پر  مرکوز  رکھتے ہیں۔  جس طرح  ایک     اچھا  طالب علم   اول آنے  کیلئے  یا کم از کم کسی  پوزیشن کا حقدار قرار پانے کیلئے ہر  پہلو   یعنی خوشخطی  ، صفائی  ،  مناسب شہ سرخیاں، پیرا گراف  کی تقسیم  سے   اچھا پرچا حل   کرنے کی کوشش  کرتا ہے۔ اسی  طرح اللہ کے سچے طالب  ہر  وہ  کام کرنے  پر  تلے  رہتے ہیں، جس کام میں اللہ کی خوشنودی  ہو۔
پس  جن کی تمام تر توجہ صرف اللہ  کی رضا اور  اس کی خوشنودی  پر  ہوتی ہے ۔ انہیں دنیاوی اسباب  کی پرواہ  ہوتی ہے نہ ہی وہ کسی  بھی بڑی سے بڑی مصیبت سے گھبراتے ہیں۔ کیونکہ ان کا اپنے اللہ پر ایمان  پختہ ہوتا ہے ۔   جیسا کہ ایک عام بات ہے  دنیا میں سب سے بڑا ڈراوا، اور خوف موت کا ہے ۔  دنیاوی سزاؤں میں سب سے بڑی سزا بھی موت کی سزا گردانی  جاتی ہے ۔  مگر  اللہ  والے دنیا کو عقوبت خانہ ، زندان خانہ  اور  موت کو  نجات کہتے ہیں۔   اکثر صوفیا  نے موت  آنے کو محبوب سے وصال  کی خوشخبری  کہا ہے ۔ ظاہر  ہے  جن کا محبوب ان سے راضی  ہے  انہیں موت یا موت کے فرشتے کا کیا ڈر۔۔۔۔؟؟؟


کہے حسین فقیر سائیں دا، چھوڑ سریر بھسم دا

اللہ کا فقیر حسین کہتا ہے ، یہ راکھ کا جسم چھوڑ دو

یہ مصرعہ فنا فی اللہ  ہونے کی ترغیب دیتے ہوئے جسم  کی محبت کی بجائے  روحانیت کی تعلیم  دیتا ہے ۔
 انسان دو  چیزوں  کا مجموعہ ہے ۔ 1:۔  جسم   2 :۔ روح
ایک کے غلبے  کی صورت میں  ظاہر  ہے دوسرے کو مغلوب ہونا ہی پڑے گا ۔  ایسا تو نہیں ہو سکتا  کہ دونوں  ہی  کا غلبہ ہو۔ اگر  ہو  بھی تو بھی  وہ غلبہ نامکمل ہوگا ۔
جسم  کے  غلبے کی صورت میں روح کو مغلوب ہو نا پڑتا ہے ۔  اور روح  کے غلبے  کیلئے جسم  کا مغلوب ہونا لازمی ہے ۔  
جسم فانی  ہے ،  جب کہ اس کے مقابلے میں روح امر ہے ۔  جسم  کا خمیر  مٹی سے ہے جبکہ روح  جنسِ لطیف  ہے اور  سراسر نورانی ہے ۔ایسے  میں عقل کا تقاضا یہی  ہے کہ بجائے  ایک فانی اور  جنسِ کثیف  جسم  کو پالنے کی بجائے ایک امر  اور نورانی جنس  لطیف  کو مضبوط کیا جائے ۔ جو ہمیشہ ساتھ رہنی  ہے ۔ اور جو انسان کی اصل ہے ۔  کیونکہ موت کے بعد جسم تو اسی دنیا کی امانت ہے اسی دنیا میں رہ جائے گا ۔برزخ اور  آخرت  کا سفر   روح نے کرنا ہے ۔ اس لیے  بہتر  یہی  ہے کہ روح  کو طاقتور بنایا جائے ۔     

Saturday 1 June 2013

من اٹکیا بے پرواہ دے نال


من اٹکیا بے پرواہ دے نال
اس دین دونی دے شاہ دے نال

میرا دل اس بے نیاز ذات سے لگ گیا ہے 
اس کے ساتھ ، جو دین اور دنیا(ساری کائنات) کا شہنشاہ ہے

اس شعر میں جہاں عشق حقیقی کا اظہار ہے ، وہیں بے بسی کا اظہار بھی ہے 
اس کی مثال یوں سمجھ لیں کہ جیسے کوئی انسان اپنی حیثیت اور مرتبے سے کئی گنا بڑی حیثیت اور مرتبے کے مالک انسان سے دشمنی مول لے لے ، تو اول تو اسے اس بات کا فخر بھی محسوس ہوتا ہے ، کہ دیکھو میں اس سے ڈرا بھی نہیں ، اور پنگا لے لیا۔ لیکن ساتھ ہی اسے یہ ڈر بھی ہوتا ہے ، کہ اب کیا ہوگا، اس دشمنی کا کیا نتیجہ ہونے والا ہے ؟ اس قسم کی فکریں بھی انسان کو لگ جاتی ہیں ۔
جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بھی فرمایا ہے کہ جب ہم نے قرآن کو پہاڑ پر اتارنا چاہا تو وہ لرز گئے، زمین پر اتارنا چاہا تو وہ کانپ گئی، انسان فطرت سے جلد باز ہے اس نے یہ بوجھ اٹھا لیا۔ اسے معلوم بھی نہیں تھا کہ یہ کتنی بڑی ذمہ داری اور بوجھ ہے ،یہی بات حضرت شاہ حسینؒ فرما رہے ہیں ، کہ انسانی فطرت کے مطابق میں نے بھی اس بے نیاز ذات سے دل لگا لیا ہے ۔ اب سوچتا ہوں کہ اس کو نبھاؤں گا کیسے؟
کیونکہ پیار ، عشق کر لینا تو کوئی بڑی بات نہیں ، بڑی بات تو عشق کر کے نبھانا ہے ، اور یہ ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے ، جو کہ آسان بھی نہیں۔   


قاضی ملاّں متاں ڈیندے
کھڑے سیانے راہ ڈسیندے
عشق کی لگے راہ دے نال
من اٹکیا بے پرواہ دے نال

قاضی ، اور مُلا ، مجھے تنبیہہ  کر رہے ہیں ، خبردار کرتے ہیں
کئی سیانے راہنما ، سیدھا راستہ بتانے والے ، کہتے ہیں
اس لامکاں  اور لا محدود ذات سے کیا عشق کرنا
میرا دل اس بے نیاز ذات سے لگ گیا ہے


قاضی سے مراد اہل علم ، منطقی اور فلسفی لوگ ہیں ۔ ملا ایک استعارہ ہے جو لکیر کے فقیر ، اجتہاد ، اور عمل سے عاری لوگوں کیلئے استعمال ہوتا ہے ۔
اب یہ سب اہل علم ، اور فلسفی ، اور ملا سب مل کر مجھے تنبیہہ کر رہے ہیں ، مجھے ڈرا رہے ہیں ، کہ باز آ جاؤ اس راستے سے ، اس راستے پر بہت ہی صعوبتیں اور آزمائشیں ہیں ۔یہ ایک بہترین طنز ہے ملا حضرات پر کہ وہ انسان کو خدا سے جوڑنے کی بجائے اس سے دور کرنے کا باعث بنتے ہیں ، بجائے کہ انسان کو اللہ کی رحمتوں ، اور نعمتوں کا شکر گزار ہونے کی ترغیب دے کر انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت جگائی جائے ، یہ لوگ اس کے الٹ کر رہے ہیں ، خدا کا ایسا تصور لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں ، جس سے اول تو انسان خدا کی ذات سے دور ہوتا چلا جاتا ہے ، اگر بالفرض عبادت بھی کرتا ہے تو صرف دوزخ کے ڈر اور ثواب ، جنت کے لالچ میں ۔ جب کہ عبادت کی روح محبت ہونی چاہیے، انسان جنت دوزخ کیلئے عبادت کرنے کی بجائے ، اللہ کی محبت ، اللہ کا قرب پانے ، اور اللہ کی رضا کیلئے عبادت کرے ۔ اس خیال سے نیکیاں کرے کہ اس کام کے کرنے سےمیرا پیارا اللہ خوش ہوگا، اور اس کام کو نہ کروں کہ اس کے کرنے سے میرا پیارا اللہ مجھے سے ناراض ہو جائے گا۔
میرتقی میرؔ:۔
جائے ہے جی نجات کے غم میں 
ایسی جنت گئی جہنم میں
مرزا غالبؔ :۔
طاعت میں تا، رہے نہ مے و انگبیں کی لاگ
دوزخ میں ڈال دے کوئی لیکر بہشت کو
  


ندیوں پار رنجھن دا ٹھانہ
کیتے قول ضروری جانڑا
منتاں کراں ملاّح دے نال
من اٹکیا بے پرواہ دے نال


ندی کے اس پار میرے محبوب کا ٹھکانہ ہے 
میں نے قول قرار کیے ہیں، اس لیے جانا بھی ضروری ہے
اب ملاح کی منت سماجت کرتا ہوں
میرا دل اس بے نیاز ذات سے لگ گیا ہے


ندی کے پار محبوب کے ٹھکانے سے مراد حرمین شریفین ہی ہے ۔ پاکستان (شاعر کے ٹھکانے) اور محبوب حقیقی کے ٹھکانے کے درمیان ایک سمندر حائل ہے۔ اس سمندر کے پار محبوب کا ٹھکانہ ہے ۔ میں نے قول اور قرار کیے ہیں ، کا مطلب ہے ، کہ قبول اسلام کے وقت انسان اقرار کرتا ہے کہ وہ اسلام کے تمام اوامر ونہی کو بجا لائے گا۔ اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک رکن حج بھی ہے ۔ جو کہ انسان پر زندگی میں ایک بار فرض ہے ۔ اب اسی قول اور قرار کو نبھانے کیلئے ، محبوب سے ایک بار ملنے ندی کے پار جانا ضروری ہے  ورنہ محبوب کیا کہے گا، کہ عاشق سچا نہیں  تھا، صرف ایک ندی پار کر کے مجھے ملنے اور اپنا قول نبھانے بھی نہیں  آیا ، اس بات سے عشق کی رسوئی ہے اور مجھے یہ منظور نہیں ۔ اس لیے اب ملاح  یعنی جہاز والے کی منت سماجت کرتا ہوں کہ مجھے ندی کے پار پہنچا دے۔
اس ندی کے پار پہنچانے والی بات میں ایک زبردست نقطہ ہے۔ ذرا غور کیجئے ۔ عاشق بھی ہے ، محبوب بھی ہے ، محبوب کا ٹھکانہ بھی معلوم ہے، ملنے کیلئے جانے کا پکا ارادہ بھی ہے ، مگر راہ میں جو ندی حائل ہے ، اسے ملاح کی مدد کے بغیر پار نہیں  کیا جاسکتا۔اگر کوئی جیسا جذباتی اپنے قوت بازو پر یقین کرتے ہوئے چھلانگ مار دے ، کہ تیر کر ہی محبوب کے ٹھکانے پہنچ جاؤں گا ، تو یہ خام خیالی ہے ، اول تو وہ اتنا دور تیر کر پہنچ ہی نہیں سکتا ۔ دوم یہ کہ اس سمندر میں صرف پانی ہی تو نہیں ہے ، اس میں وہیل مچھلیاں، شارک مچھلیاں ، آدم خور کیکڑے، آکٹوپس، اور خونخوار مگرمچھ بھی تو ہیں ، جو کہ ہر قدم پر گھات لگائے بیٹھے ہیں ۔ ایسے تیرکر تو ٹارزن یا ہر کولیس بھی کبھی نہیں پہنچ سکتا ، ایک عام انسان کی تو حیثیت ہی کیا۔ اب یہاں ضرورت ہے ایک کشتی کی اور کشتی ملاح کے بغیر بے کار ہے ۔ ملاح کو کرایہ دینا ہوگا ، یا اگر پلے کچھ نہیں تو اس کی خدمت کرنی ہوگی، اس کی منت سماجت کرنی ہوگی، اگر ملاح کو راضی کر لیا تو وہ محبوب کے ٹھکانے والے کنارے پر لگا دے گا۔ اب وصل کوئی مشکل نہیں ۔
اسی ملاح کو ہم اپنی اصطلاح میں مرشد کریم کہتے ہیں۔    


کہے حسین فقیر نمانڑا
سچے صاحب نوں میں جانڑا
اوڑھک کام اللہ دے نال
من اٹکیا بے پرواہ دے نال


بے چارا فقیر حسین ؒ کہتا ہے 
کہ اس سچے شہنشاہ کو میں مانتا ہوں 
آخر مجھے اس کے سامنے ہی پیش ہونا ہے
میرا دل اس بے نیاز ذات سے لگ گیا ہے


عشق ہمیشہ بے سروسامان ہی ہوتا ہے ، اس لیے شاہ حسین اپنی بے چارگی، اور بے سروسامانی کا ذکر کرتے ہیں ۔
استادجی مرزا  غالبؔ نے بھی کیا خوب فرمایا ہے :۔
شوق ، ہر رنگ ،  رقیب سر وساماں نکلا
قیس،  تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا
جب عشق ہو جائے تو عشق محبوب کے علاوہ ہر چیز سے بے گانہ کر دیتا ہے ، ہر چیز سوا محبوب کے نگاہوں میں ہیچ ہو جاتی ہے ۔ اسی بات کا اظہار شاہ حسین نے اس شعر میں کیا ، کہ میرا مطلوب و مقصود صرف وہی حسن مطلق، محبوب حقیقی ہے، جو کہ تمام کائنات کا اکیلا مالک اور شہنشاہ ہے ۔ وہ مالک یوم الدین ہے ، یہ اس کی بزرگی ہے ۔ ایک دن میں نے اس کے سامنے پیش ہونا ہے ، اور اپنے اعمال کا حساب دینا ہے ، تو میں کیوں فروعات میں پڑوں ، ان باتوں کا اہتمام کروں جن سے کچھ فائدہ حاصل نہیں ہونے والا ، میں اپنے پروردگار ، اپنے محبوب کو راضی اور خوش کرنے والے کام کیوں نہ کروں ، تاکہ میں قیامت کے دن اس کی ناراضگی سے بچ سکوں اور اس کے قرب کا حقدار ٹھہرایا جا سکوں ۔ اس راستے کی رکاوٹوں کی مجھے کوئی پرواہ نہیں ، کیونکہ میرا محبوب بھی تو ایک بے نیاز ذات ہے ۔  

Sunday 5 May 2013

لوک گیت ۔ وسیب کی ثقافت کے امین


ہر جاندار مخلوق اپنی خوشی  ، غم ، محبت اور نفرت کےجذبات و احساسات کا اظہار مختلف انداز یعنی  آوازوں اور حرکتوں سے کرتی ہے ۔انسانی تاریخ کے حوالے سے دیکھا جائے تو جب انسان بولنا نہیں جانتا تھا تو اپنے جذبوں کا اظہار لفظوں  کی بجائے حرکتوں سے کرتا تھا ۔ یہاں پر لوک رقص عیاں ہوا۔
بعد میں انسان نے اپنے جذبوں کو لفظوں کا روپ دیا ۔ اور آخرکار یہ لفظ گیت بن گئے ۔ ان گیتوں کی وجہ  کسی شاعر کی شعوری کوشش نہ تھی اور نہ ہی ان پر کسی شاعر کی چھاپ لگی ہوئی ہے ۔ ان گیتوں میں  شاعری کی فنی باریکیوں کی بجائے جذبوں کا اظہار نمایاں ہوتا ہے ۔۔ ہمیں کبھی کبھار  تو لوک گیتوں کے بارے میں معلوم ہی نہیں ہوتا  کہ کون کون سے بول ان میں کب شامل ہوئے ۔ ہم صرف ان گیتوں کے ذریعے  اپنے من میں اٹھتے  ہوئے جذبوں کا اظہار کرتے اور لطف اٹھاتے ہیں ۔
لوک گیت جنگلوں  میں پیدا ہونے والے پھول ہوتے ہیں جو اپنے رنگوں ، خوبصورتی  اور خوشبو سے ہر کسی کا دل موہ لیتے ہیں۔ یہ دھرتی سے جنم لیتے ہیں اور  دھرتی واسیوں کے ہاتھوں پھلتے پھولتے ہیں ۔ اور پھر ایسا سایہ بن جاتے ہیں کہ اس سائے  میں بیٹھنے والے یعنی اس گیت کو سننےوالے  کی ساری تھکن اتار دیتے ہیں ۔یہ دیہاتی لوگوں کے  سیدھے سادے دلوں سے نکلے جذبات ہوتے ہیں جو گیت بن جاتے ہیں۔  ان گیتوں میں معصوم لوگوں کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں  کے رنگ اور ان کی بھولی بھالی خواہشوں کے سائے لمبے ہوتے  نظر آتے ہیں جو پوری نہیں ہو سکتیں اور اداس دلوں کیلئے لہو رنگ بن جاتی ہیں ۔ 
اکثر لوک گیتوں میں کئی مقامات پر  زندگی کی سچائیاں ایسی سادگی اور محاورے دار موتیوں جیسی بولی میں جڑی ہوتی ہیں کہ وہ دلوں کو موہ لیتی ہیں ۔یہ گیت پشت در پشت  ، سینہ بسینہ  یادوں میں چلے آرہے ہیں ۔  یہ خوشیوں  بھرے لوک گیت خوبصورتی سے گزرے وقت کی یاد تازہ کرکے  آنے والی گھڑیوں کی رکھوالی کرتے اورہمیشہ  دماغوں کو تروتازہ رکھتے ہیں۔
سرائیکی وسیب میں بچوں کے گیت ، ڈولی ، جھوک ، جنج کی واپسی  کے گیت ، پکھیوں کے گیت ، مہندی ، جگ راتے ، جھمر، چرخے ،  چھلے ، ڈھولے ،  ڈوہڑے ، رادھاں ،  زیارتوں ، ساون ماکھوں ،  سہرے ، سموڑیاں  ، سگن، سمیں ، فصلوں ، کھیلوں ،  لولی ، مخولیہ ، ماہیے ، میل ، دھرتی وغیرہ کے گیت رائج ہیں ۔  اور ہماری تہذیب و ثقافت کی بھرپور انداز میں  عکاسی کرتے ہیں۔ شہری زندگی میں تو یہ  آہستہ آہستہ  یہ رسمیں  ، ریتیں  معدوم ہوتی جا رہی ہیں ۔  لیکن دیہاتی زندگی اور ماحول   نے ابھی تک  کچھ حد تک ان  صدیوں پرانی ریتوں اور رسموں یعنی لوک گیتوں  کو زندہ رکھا ہوا ہے ۔
سرائیکی لوک گیتوں کی  تاریخ بھی اتنی ہی پرانی ہے جتنی خود سرائیکی  شاعری کی  تاریخ ہے ۔ یہاں  سرائیکی  وسیب میں رائج  چند اہم لوک گیتوں  کے  نمونے پیش کیے جاتے ہیں۔

بچوں کے گیت
جھل پکھا تے آوے  ٹھڈی وا
میڈے ویر کو  ں رنگ چا لا

پرنے(شادی) کے گیت
پُھلاں  والی ارائین سہرا پھلاں دا پوا
جیوی پیو تے بھرا، ساڈادل نہ رنجا

شادی کے موقع پر گاناں  بدھائی کا  گیت
تیڈے گانے کوں  لاواں گھیو خاناں
تیڈی جنج سوہیسی  پیو خاناں
میڈا  خیر  اللہ  دا  بدھ  خاناں

مہندی کے گیت
مہندی کو ں لاواں مینڑ
تیڈیاں ویلاں گھلیسم بھینڑ

سہرے  کے گیت
حوراں پریاں سہرے  گانون
وارو واری  ویلاں پانون

وے میں  سہرا تیڈا گانواں وے
شہزادہ بنا وے

جھمر کے گیت
کوٹھے تے پڑ کوٹھڑا  وے ، تے کوٹھے سکدااے گھا بھلا
لکھ لکھ  چٹھیاں وے میں تھک ہٹیاں  تو کہیں بہانے  آ بھلا

دل تانگھ تانگھے، اللہ  جوڑ سانگھے
سجناں  دا ملنا  مشکل مہانگے

کھڑی ڈیندی آں  سنیہا اناں لوکاں کوں
اللہ آن وساوے  ساڈیاں جھوکاں کوں

چھلے  کے گیت
چھلا پاتی کھڑی  آں ہک
میڈی نئیں پئی لاہندی سک
میکوں  تیڈی پئی اے  چھک
منہ  ڈکھاویں چا

تیڈے کھوہ  تے  آئیاں پانی پلا ڈے
سخناں  دا کوڑا ساڈے چھلڑے  ولا ڈے

ڈھولے  کے گیت
بزار  وکاندی  تر وے
میڈا سوڑی گلی وچ گھر وے
تے پیپل نشانی وے ڈھولا
بزار وکاندی پنڈ وے
تیڈے بت وچ میڈی جند وے
ہکو کر سمجھیں وے ڈھولا

ماہیے کے  گیت
ککراں دے پھل ماہیا
اساں پردیسی ہیں
ساڈے پچھوں نہ  رُل ماہیا

روٹھنے کے گیت
میڈا چن مساتا،  میڈا چن مساتا
اینویں  نی کریندا 
 لوکاں  دے آکھے رُس نئیں  ونجیندا

ساوی موراکین تے بوٹا  کڈھ ڈے چولے تے
رُٹھی نی منیساں  بہوں  ناراض ہاں ڈھولے تے

Monday 1 April 2013

جگ میں جیون تھوڑا



جگ میں جیون تھوڑا، کون کرے جنجال

اس دنیا میں جینا (عمر) بہت تھوڑے دن کی ہے ، کون اس جنجال میں پڑے

کیندے گھوڑے ، ہستی ، مندر، کیندا ہے دھن مال

کس کے گھوڑے ، شان و شوکت ، دین دھرم، اور کس کی ہوئی ہے دھن دولت

اے دنیا دن دو اے پیارے، ہر دم نام سنبھال

یہ دنیا صرف دو دن  کی ہے ، ہر وقت آخرت کی فکر میں لگے رہو پیارے(یا  ۔موت کو یاد رکھو)

کہے حسین فقیر سائیں دا، جھوٹا سب اے  بیوپار

اللہ کا فقیر ، بے چارا حسین  کہتا ہے ، کہ یہ سب بیوپار ، یعنی دنیا کے دھندے ، سب جھوٹ اور فریب ہیں 

مرزا غالبؔ

ہستی کے مت فریب میں آجائیو اسدؔ
عالم تمام حلقہ دام خیال ہے 

Saturday 23 March 2013

سرائیکی وسیب کے مقبول کھیل

صدیوں سے آباد سرائیکی خطہ اپنے اندر زندگی کے سبھی رنگ سموئے ہوئے ہے ۔ مسلسل حملہ آوری کے باوجود بھی اس خطے کے لوگوں نے اپنی زبان و ثقافت کو سینے سے لگائے رکھا۔ شاعری کا میدان ہو یا کھیلوں کا میدان اس خطے نے اپنی ہمسایہ اقوام کو نہ صرف متاثر کیا بلکہ انہیں اپنی طرف توجہ بھی کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج سرائیکی شاعری پسندیدگی کے اعتبار سے سرحدیں پار کر چکی ہے ۔ اور سرائیکی شاعری کی مانند سرائیکی خطے میں کھیلا جانے والا کھیل "گھرمے آلی گوڑھی" آج کرکٹ کی شکل میں پوری دنیا پر راج کر رہا ہے۔
یوں تو سرائیکی خطے میں کھیلے جانے والے بچوں کے کھیلوں کی ایک لمبی فہرست ہے ۔ مگر یہاں میں چند مشہور ترین کھیلوں کا تذکرہ کروں گا جو سرائیکی وسیب کے بچوں میں بہت مقبول ہیں۔

 باندر کِلہ

یہ سرائیکی خطے کے بچوں کا مقبول ترین کھیل ہے ۔ اسے خواتین بھی شوق سے کھیلتی ہیں ۔
اس کھیل کیلئے ایک عدد رسی ، کِلے ( کھونٹے) اور چند جوتوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔ باری دینے والا کھلاڑی رسے کو پکڑ کر کِلے کے اردگرد گھومتا ہے جبکہ دوسرے کھلاڑی پھرتی سے کلے کے قریب پڑے جوتے اٹھاتے ہیں ۔ اگر سارے جوتے اٹھا لیے جائیں تو وہ رسی چھوڑ کر" پیڑ " (منزل مقصود)کی طرف دوڑتا ہے ، اور باقی کھلاڑی اس پر جوتوں کی بارش کر دیتے ہیں ۔ اگر کوئی کھلاڑی جوتا اٹھانے کی کوشش کے دوران پکڑا جائے تو وہ "سڑ" جاتا ہے اور پھر وہ باری دیتا ہے


شیدن

یہ کھیل بھی سرائیکی خطے کے دیہاتوں اور شہروں میں یکساں مقبول ہے ۔ اس کھیل کیلئے ایک عدد پِھکری (ٹھیکری) کی ضرورت پڑتی ہے ، جسے گول کر لیا جاتا ہے۔کھلاڑی زمین پر ایک بڑا سا ڈبہ بنا کر اس کے خانے بنا لیتے ہیں ، اور باری باری ٹھیکری کو ان خانوں میں ڈال کر ایک ٹانگ کے ذریعے اسے باہر نکالنے کی کوشش کرتے ہیں ، اگر تمام خانوں سے کامیابی سے ٹھیکری کو باہر نکال لیا جائےتو وہ کھلاڑی جیت جاتا ہے ، اگر کامیاب نہ ہو سکے تو ظاہر ہے ہار جاتا ہے ۔ پھر دوسرا کھلاڑی اسی ترتیب سے کھیل کھیلتا ہے


ڈیٹی ڈنڈا (گلی ڈنڈا)

یہ کھیل ویسے تو پورے پاکستان میں کھیلا جاتا ہے لیکن سرائیکی خطے میں اس کی اہمیت و نوعیت منفرد ہے ، یہ کھیل بچوں اور بڑوں میں یکساں مقبول ہے ۔ یہ کھیل کئی طریقوں سے کھیلا جاتا ہے۔ اس کھیل کیلئے ایک ڈیٹی (گلی) اور ڈنڈے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ایک ٹیم جب مطلوبہ نمبر (پوائنٹ) بنا لیتی ہے تو دوسری ٹیم سزا کے طور پر مخصوص آواز نکالتے ہوئے پیڑ تک آتی ہے ۔ یہ کھیل بارش کے دنوں میں زیادہ کھیلا جاتا ہے ۔ اس کھیل سے ایک تو کھلاڑی چست و چالاک ہو تے ہیں ، دوسرا وہ نظم و ضبط بھی سیکھتے ہیں


چیکل

یہ ایسا کھیل ہے جو صرف گرمیوں میں کھیلا جاتا ہے ۔ اسے لڑکیاں بہت شوق سے کھیلتی ہیں ۔ ایک ماہر بڑھئی سے چیکل تیار کروانے کے بعد اسےکسی گھر میں موجودسایہ دار درخت کے نیچے نصب کر دیا جاتا ہے ۔ دوپہر کے وقت لڑکیاں اور خواتین اس پر بیٹھتی ہیں اور چیکل کھیلتی ہیں ۔ چیکل کے گھومنے والی جگہ پر کولے (کوئلے) ڈالے جائیں تو اس سے زوردار آواز پیدا ہو تی ہے ۔


لاٹو (لٹو)

لاٹو بھی سرائیکی خطے کے بچوں اور لڑکوں کا من بھاتا کھیل ہے ۔ بڑھئی سے خوبصورت رنگ برنگے لاٹو تیار کروائے جاتے ہیں ، نوک کے طور پر لاٹو میں لوہے کا کیل بھی نصب کیا جاتا ہے ۔لاٹو گھمانے کیلئے ایک رسی بھی درکار ہوتی ہے۔آج کل مارکیٹ سے بھی خوبصورت لاٹو بنے بنائے مل جاتے ہیں، جنہیں دیہاتی شوق سے خریدتے ہیں۔ دیہات میں کسی بڑے سایہ دار درخت کے نیچے اس کا میچ لگتا ہے ۔ کچھ بڑے لاٹوں کے گھمانے کا کھیل کھیلتے ہیں ، کچھ ایک دوسرے کے لاٹو کو اپنے لاٹو سے مارنے کا ۔ اس کھیل میں لاٹو ٹوٹ بھی جاتے ہیں ۔


لُک چھپ

یہ ایسا کھیل ہے جو سردیوں ، گرمیوں میں کھیلا جاتا ہے۔ یہ لڑکوں اور لڑکیوں میں یکساں مقبول ہے ۔ اسے کھیلنے کے مختلف طریقے ہیں ۔ ٹاس ہارنے والا پیڑ (منزل مقصود) پر کھڑا ہو جاتا ہے (آنکھیں بند کر کے) باقی کھلاڑی اسے چھپ کر آواز دیتے ہیں ۔ وہ چکے سے انہیں پکڑنے کی کوشش کرتا ہے ، اگر کوئی پکڑا جائےتو ٹھیک ورنہ وہ بار بار باری دیتا ہے ۔ اکثر اوقات یہ کھیل رات گئے تک بھی جاری رہتا ہے ۔


نوڑا وٹ ۔ کوکلا چھپاکی

یہ کھیل بھی لڑکے اور لڑکیاں شوق سے کھیلتے ہیں ، دیہاتوں اور شہروں یکساں طور پر مقبول ہے ۔ اس کھیل کیلئے کپڑے کے ایک نوڑے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ کپڑے کو بل دے کر(وٹ کے) اس کا ایک کوڑا بنا لیا جاتا ہے ۔ باری دینے والا اسے ہاتھ میں پکڑ کر گول دائرے میں بیٹھے کھلاڑیوں کے گرد گھومنے کے دوران چپکے سے نوڑے (کوڑے) کو کسی کے پیچھے رکھ دیتا ہے ۔ اگر اسے پتہ چل جائے تو تو اسے اٹھا کر باری دینے والے کے پیچھے بھاگ کر اسے مارتا ہے ۔ اگر وہ خالی جگہ پر بیٹھ جائے تو مار سے محفوظ ہو جاتا ہے ۔ اگر جس کے پیچھے نوڑا پڑا ہو اسے پتا نہ چلے تو وہ مار کھاتا ہے ۔


ہِل کانگڑہ/لُنڈی /ون چڑھ

یہ دیہاتی بچوں میں بہت شوق سے کھیلے جانے والا کھیل ہے ۔گرمیوں کی چھٹیوں میں بچے باغوں میں اس کا خاص اہتمام کرتے ہیں۔اس کھیل میں ایک ڈنڈا مرکزی کردار ادا کرتا ہے ۔ ٹاس ہارنے والا کھلاڑی درخت کے نیچے کھڑا ہو جاتا ہے ۔ جبکہ باری لینے والوں میں سے ایک اس ڈنڈے کو اپنی ٹانگ کے نیچے سے دور پھینکتا ہے ۔ باقی کھلاڑی درختوں پر چڑھ جاتے ہیں ۔ باری دینے والا ڈنڈے کو اٹھا کر اس درخت کے نیچے رکھ کر خود درخت پر چڑھ جاتا ہے ، تاکہ کسی کو پکڑ سکے۔ دوسرے کھلاڑی پھرتی سے نیچے اتر کر اس ڈنڈے کو اٹھا لیتے ہیں ۔ اگر کوئی پہلے پکڑا جائے تو وہ باری دیتا ہے ۔ اس طرح یہ کھیل شام تک جاری رہتا ہے۔


بیلو بیلو

یہ ایسا کھیل ہے جو شام کے وقت کھیلا جاتا ہے۔ اس کھیل کیلئے دو ٹیمیں تشکیل دی جاتی ہین ۔ دونوں ٹیموں کے کپتان تھوڑے فاصلے پر بیٹھ جاتے ہیں اور نزدیکی بستی کے کسی درخت یا جانور کا نام ذہن میں رکھ کر کھلاڑیوں سے پوچھتے ہیں :۔" بیلو بیلو کجھی وچوں کھجی چنو"۔
دونوں ٹیموں میں سے کوئی پہلے بوجھ لے تو وہ ٹیم دوسری ٹیم کے کھلاڑیوں کی پشت پر بیٹھ کر کپتانوں کے پاس آتی ہے ۔ یہ ہارنے والی ٹیم کیلئے ایک سزا ہوتی ہے ۔ یہ نہایت ہی دلچسپ کھیل ہے جو رات گئے تک جاری رہتا ہے ۔


بچپن یاد آیا کہ نہیں؟۔ ان میں سے کون کون سے کھیل آپ اپنے بچپن میں کھیلتے رہے ہیں۔؟

Thursday 14 March 2013

حضرت خواجہ غلام فرید رحمتہ اللہ علیہ کے کلام کی تضمین

حضرت خواجہ غلام فرید رحمتہ اللہ علیہ کے کلام کی تضمین

از

جناب ملک حبیب صاحب


ساکو ہک ہے تیڈی یار طلب
دِل ڈولے کھاوے نال کرب
ہے ہجر دی لمبڑی رات غضب
اتھاں میں مُٹھڑی نِت جان بلب
سوہنا خوش وسدا وِچ مُلک عرب

جِند نال ڈُکھاں دی لانب لگی
ونج جِگر دے وِچ ہے ساہنگ لگی
رہ عشق تے دلڑی اڑاہنگ لگی
ہر ویلے یار دی تاہنگ لگی
سُنجے سینے سِکدی ساہنگ لگی
ڈُکھی دِلڑی دے ہتھ ٹاہنگ لگی
تھئے مِل مِل سول سمولے سپ

دو عالم تھیں ایہہ دِل ہٹیا
جَڈاں عِشق تیڈا ہے میں کھٹیا
ونج ہِجر دی بھاہ وِچ اینہہ سَٹیا
جیں ڈینہہ دا نِینہ شِینہ پَھٹیا
لگی نیش ڈُکھاندی عیش گھٹیا
سبھ جوبن جوش خروش گھٹیا
سُکھ سَڑ گئے مر گئی طرح طرب

تیڈے ناں دا وِرد پُکار پِھراں
ہر تھاویں لبھدی یار پِھراں
گل پا تے ڈُکھاں دے ہار پِھراں
تتی تھی جوگن چو دھار پِھراں
ہند سِندھ پنجاب تے ماڑ پِھراں
سنجبار تے شہر بازار پِھراں
متاں یار مِلم کئی سانگ سبب

تُو شاہ میڈا میں باندڑی ہاں
در تیڈے دے ٹکڑے لاندڑی ہاں
میں گندڑی کوہجڑی ماندڑی ہاں
توڑے دِکھڑے دھوڑے کھاندڑی ہاں
تیڈے ناں تے مُفت وِکاندڑی ہاں
تیڈے باندیاں دی میں باندڑی ہاں
تیڈے دَر دے کُتیاں نال ادب

بے مِثل حبیب میڈا شاہِ حُسن
جیہندے پیراں دی خاک ایہہ سُورج چن
لَکھ یوسف دَر تے ہو بَردے وِکن
واہ سوہنا ڈھولن یار سجن
واہ سانول ہوت حِجاز وطن
آ ڈیکھ فرید دا بیتِ حُزن
ہم روز ازل توں تاہنگ طلب


بصد شکریہ جناب ملک حبیب صاحب

Tuesday 12 March 2013

پانڑیں



سرائیکی افسانہ

پانڑیں



واہ واہ ہے، اللہ بادشاہ اے، کاغذ دی بیڑی اے ، کبوتر ملاح اے ،۔
کپڑی مائی سُتی پئی اے ، اُٹھ سراندی ڈتی پئی اے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈاڈا جند وڈا قصے دا تھل بدھیندا بیٹھے تے نال نال بھاہ وی پھلریندا بیٹھے۔
سارے کئو کیتی بیٹھن پر سانول کو عجیب اچوی ہے ، کہیں ویلے کہیں چُنڈ اِ چ باہندے تے کہیں ویلے کہیں چُنڈ اِچ، ساری مجلس کو بے چسا کیتی بیٹھے۔
ڈاڈا ڈاڈھی ٹیرویلی کھاندے پر صبر دا گُھٹ بھر دے قصے اِچ رُجھ ویندے
۔

مارکہ ! ہِک ہا بادشاہ ، بادشاہ تاں اللہ آپ اے، او ہِک ٹوٹے زمین دا بادشاہ ہا۔بادشاہ موت توں ڈاڈھا ڈرداہا۔"
موت دا ذکر کریندے خود ڈاڈے دی وی چھرکی نکل گئی ۔ نال بیٹھے ڈیوائے اپنا سر گوڈیاں اچ چا ڈتا۔
"خیر مارکہ بادشاہ موت دے ڈر پاروں اپنے اندروں باہروں  فوج رکھیندا ہئ ۔ ول ہِک وڈا محل بنوایس۔ جیندے آسون پاسوں  ہِک وڈی فصیل ہئی تاں جو موت اندر نہ وڑے ۔ ہِک ڈیہاڑے ہِک وزیر بادشاہ کوں مشورہ ڈِتا۔ بادشاہ سلامت ! اِتھاؤں ترائے ڈیہاڑیں دے پندھ تے ہِک پہاڑ اے، پہاڑ اِچ ہِک تلا اے، جے تساں اوندا پانی پی گِھنو تاں او پانی آبِ حیات اے تہاکوں کڈاہیں موت کائناں آسی ۔ بادشاہ ایہہ گالھ سُن تے منادی کرادتی بھئی جیڑھا جوان ایہہ پانی بھر آسی اونکوں میں  ادھی شاہی دان کریساں۔ لوگ لالچ اِچ آگئے ، اُنھاں ڈاڈھے تن مارئیے پر پانی بھر تے کوئی وی نہ ولیا تے ول ہِک ڈیہاڑے ۔۔۔۔۔"
قصہ سُنیندے سُنیندے ڈاڈے سنگت کوں جو ڈِٹھا سارے اُباسیاں بیٹھے ڈیندے ہن ۔ ڈاڈے آکھیا :۔ "مارکہ!اج اتنا کافی ہے اگوں دا واقعہ کلھ رات سُنیساں ۔"  ایہہ گالھ کر ڈاڈا مُسک پیا ۔ اسمان دُو ڈیکھ آپ مرادا آہدے :۔"واہ اللہ سئیں آں ! ساڈے چیتے وی نینگریں وانگوں بناویں ہا ۔ بے فکرے رُلوں ہا ، بے فکرے سموں ہا ۔ "ول ڈاڈے دم درود پڑھیا ہِک پُھوکا اپنے بُت کوں ماریُس تے ڈُوجھا وستی کوں تے ول کلمہ پڑھ تے سم پیا۔


ایڈوں سانول اونویں بے چسا بیٹھا ہا ۔ کہیں ویلے اُٹھی باہوے ، کہیں ویلے دگھر ونجے۔ ہر ویلے  پانی بارے سوچے ۔ سانول اللہ ڈِتے مور دا وڈا پُتر ہئی، او پانی برن واسطے سوچیندا ، ول خیال آندس  جو ایہہ کم آپے تھی ونجے ہا تاں کیڈا چنگا ہا ۔ ول او پانی دا سوچ تے پریشان تھی ویندا تے دِل اِچ پانی بھر آون دے منصوبے بنیندا۔
چاچی پھاپھل کئی واری سانول کوں کانواں آلی سرکار دی زیارت کروا آئی ۔ پانی پڑھوا تے پلوایس۔ ڈولے نال تعویز بدھیس ۔ پر سانول کوں کوئی فرق نہ پیا ۔ ہر ویلے سوچاں اِچ غرق راہندا ہا۔ نال آلی وستی دے جوگی آکھیا  جو" مائی پھاپھل ! پتر تیڈا بدھیا پئے ، میں ست راتیں جگارا کٹیساں اللہ خیر کریسی ۔" ایہہ گالھ سن چاچی ٹھک پھک پلو نال بدھے چالھی روپے  جوگی کوں کھول ڈتے تے ہتھ بدھ عرض کیتس:۔ "سئیں آں ! میڈا سانول میکوں ولا ڈے میں گدری گاں دی واگ نذر کریساں "
وستی دا ہر بندہ گویڑ کریندا ۔ اللہ جانے سانول کوں کیا تھی گئے ۔ ہکو ڈاڈا جند وڈا بے فکرا ودا ہا۔ مطمئن ہا ، چک تے حقے دا سوٹا چھکیندا تے ول اسمان دو ڈہدا تے مُسک پوندا  سانول دی بے چینی اونکوں مونجھا کیتی ودی ہئی نہ کوئی سانول دا درد بجھ سگدا ہا نہ سانول آپ کہیں کوں ڈس سگدا ہا۔


قصہ اتھائیں رک گیا ۔ دھوں دُکھن بندتھی گیا ۔ ایڈوں جوگی اپنا عمل شروع کیتا ۔ ہِک رات گزری ، ڈُوجھی گزری ، تریجھی گزری ، اورک سنویں رات آگئی ۔ جوگی دا عمل پورا تھیا تے اوں دھرتی اِچ ہِک کِلہ ٹھوک ڈِتا۔
سویل دا سِجھ کیا اُبھریا سانول دے منہ تے رونق ول آئی ۔ اونویں نرویا تھی گیا ۔ کِھلدا ، کھیڈدا ، بھجدا ودا ہا ۔مائی پھاپھل جوگی کوں بھوری کگاں دی واگ ڈتی ۔ ڈُوجھیاں منتاں منوتیاں پوریاں کیتیاں ۔ پر اصلی گالھ دی سِدھ کہیں کوں نہ ہئی ، جو ہوں رات سانول دل بدھ تے پہاڑ تے پُجن دا پکا ارادہ کر گھدا ہا۔ اوں سوچیا  جو او پہاڑ توں پانی بھر آسی تے ساری وستی کوں پلیسی تاں جو وستی جیندی راہوے ، کہیں کوں موت نہ آوے ۔ایہو خاب تے حوصلہ ہا جیڑھا سانول کوں کوش کیتی ودا ہا ۔ تے ہِک ڈیہنھ پہاڑ دُو ٹُر پِیا۔ہر کوئی پریشان ہووے ، سانول دی گول شروع تھئی  پر سانول لبھ نہ آیا۔
منزل دُو ٹُردے ٹُردے سانول کوں ہِک جنگل دے نیڑے رات پئے گئی اونکوں جنگل اِچ سوجھلا نظر آیا ۔ سانول ہوں پاسے ٹُر پیا ۔ ڈِہدے تاں کیا ڈِہدے ، ہِک جھوپڑی اے جیندے اِچ سِروں گنجا، پیروں رانا ہِک بندہ بیٹھے تے وِرد بیٹھا کریندے ۔" ایہہ ڈیکھ اے۔زندگی ڈُکھ اے۔ سبھ ڈُکھ ای ڈکھ اے"
سانول کنج دیر تاں ایہہ سب کجھ ڈہدا رِہیا ۔ ول کھنگورا مار ے اپنی موجودگی دا احساس ڈیوایستاں بابے اونکوں اندر سڈ گِھدا ۔ حال حویلا پُچھیس۔ سانولاپنا مدعا ڈسیا جو ایویں ایویں اُتھوں پانی اے۔ بابا گالھ سن تے ٹھڈا شُکارا بھریندے تے آہدے :۔ "بچڑا ! پانی ہے تاں سہی پر اج تئیں اُتھوں پانی بھر کے ولیا کئی نی ۔ میں تیکوں مت لینداں جو اگوں نہ ونج تے گھر ول ونج۔"
سانول ضد کر گیا ۔ بابے آکھیا:۔ "بچڑا ! اینویں سِدھا پِیا ونج ، ہِک ڈینہھ دے پندھ دے بعد اگوں سڑک دُو راہ تھی ویسی ۔ ہِک سجے پاسے، دُوجھی کھبے پاسے ۔ پر توں کڈاہیں نہ ٹُریں تے سِدھا پیا ونجیں ۔ اگوں تیکوں ہِک بندہ مِلسی  جیڑھا تیکوں راہ لیسی ۔ پر بچڑا یاد رکھیں ، نِرا ڈُکھ ای ڈُکھ اے۔"
سانول ہر گالھ سُن گِھدی تے لحظہ اکھ لاون دی اجازت منگیس ۔ بابے موکل ڈِتیتے سانول اتھائیں لمبا تھی گیا ، پر اکھیں اِچ نِندر نہ آیُس ، اوندے من اِچ خوشی و ہئی تے بے چینی وی۔
ایں حال اِچ اُتھائیں رات لنگھایس تے سنویں سنج نال اُتھوں ٹُر پیا ۔ ٹُردے ٹُردے شام تھی گئی ۔ اگوں ڈُوراہ آگئے پر او سِدھا ٹُریا گیا اگوں ونج تے کیا ڈہدے جو ہِک چھولداری اے جیندے اِچ ہِک سودائی بیٹھے لحظے لحظے کوئی شئے نِپڑیندے ، درد دی آہ کڈھیندےتے آہدے شکر اے میں جینداہاں ۔سانول کھنگورا مار کے اپنی موجودگی دا احساس ڈیویندے ، سودائی سانول کوں ڈیکھ تے کِھل پوندے تے آہدے پتر آ اندر لنگھ آ۔ سانول اندر لنگھ آندے تے اپنی گزری وہانی سُنیندے۔سودائی آہدے :۔"کاکا ! توں وی ایہو عمل کر جیڑھا میں کریندا بیٹھا ں ول تیکوں احساس تھیسی جو جیندا وی ہیں یا کائناں ۔"
پر سانول آہدے :۔" بابا میکوں رات ٹِکا تے اگوں دا رستہ لا۔"
سودائی آہدے:۔" سویلے سویلے ٹُر پوویں ، اگوں ہِک جا تے چوک آسی ، پر توں سِدھا ونجیں پیا ، اگوں ول کوئی تیکوں مِلسی جیڑھا تیکوں راہ لیسی۔"
سانول رات گزار تے ٹُر پوندے ۔ شام تھیون توں پہلے اگوں چوک آویندے ، پر ایہہ سِدھا ٹُردے ویندا ۔ اگوں ڈِہدے تاں کیا ڈِہدے جو ہِک بزرگ اے ، جیڑھا حیرت نال ڈہدا بیٹھے ، ایویں لگدے جو سب کجھ ڈِہدا بیٹھے پر اونکوں کوئی خبر کائنی ۔ 
سانول کھنگورا مار کے اونکوں اپنی موجودگی دا احساس ڈیویندے ۔ بابا اوں حالت اِچوں نکلدے تے آہدے :۔"نہ سفر مُکدے ، نہ حیرت مُکدی اے۔
خیر بچڑا! حال کر، کیویں آئیں ۔"
سانول اپنے آون دا حال حویلا ڈیندے تے رات ٹِکن دی ارداس کریندے ۔ بزرگ آہدے :۔ "پتر اج تئیں پانی بھر کے کوئی نی ولیا ۔ حیرت ضرور تھیندی اے ۔ خیر پتر سویرے اُٹھی کے سِدھا ٹُر پوویں شام توں پہلے منزل تے پُج ویسیں ۔ پر نہ سفر مُکدے نہ حیرت مُکدی اے۔"
سانول سویرے اُٹھی کے ٹُر پوندے ، ٹُردے ٹُردے اونکوں ایویں لگدے جو ہر شئیے سُنجاپو ہے۔ ہر شئے اپنی اپنی اے۔ سانول جنگل ٹپدے تاں کیا ڈِہدے اپنی وستی اِچ آیا کھڑے ۔ حیرت توں اکھیں کھل ویندے نِس ، پر زبانوں کجھ الا نی سگدا، سکتے اِچ آویندے۔ سامنے ہِک مشکی نانگ  چھجلی کڈھ کے کھڑے  ڈنگ مریندے تے سانول شل تھی ویندے ۔


ڈاڈا جِند وڈا وستی آلیاں کوں کٹھا ودا کریندے جو مارکہ رات ضرور آواہے قصہ اتھاؤں شروع کریساں  جتھاں مکیاہئ۔اللہ ڈتا پانی دے وارے توں آندے تاں اگوں پتر دی لاش پئی ہوندی اِس۔ جیندے منہ اِچوں جھگ نکلدی پئی ہوندی اے ۔ اللہ ڈتا لاش چا وستی ؤڑدے تاں ڈاڈا جند وڈا آہدا بیٹھا ہوندے :۔ "بالو ! سانول اوں پاسے گئے جتھوں پانی بھر کے کوئی نی ولیا۔"  


Saturday 12 January 2013

مائے نی میں کنوں آکھاں





مائے نی میں کنوں آکھاں، درد وچھوڑے دا حال

اے ماں !!  میں اپنے دردِ جدائی کا احوال کس سے کہوں


انسان کی فطرت ہے کہ اسے جب کوئی درد یا تکلیف ہو تو وہ لاشعوری طور پر ماں کو ہی پکارتا ہے ۔ اس میں عمر کی کوئی قید نہیں ۔ بچہ ہو یا بڑا ، چاہے بوڑھا بھی ہو ، اس کے منہ غیر اختیاری طور پر "ہائے اماں" "اوئی ماں"  کے الفاظ ہی نکلتے ہیں 
یہ الفاظ بھی اسی  انسانی  فطرت، اور نفسیات کے آئینہ دار ہیں  ، 
درد جدائی سے صوفیا کرام روح کی اپنے مبدا سے جدائی کو کو قرار دیتے ہیں ، جس میں روح کو اپنے مبدا سے جدا کر ، پہلے عالم ارواح ، پھر اس دنیا میں انسانی جسم میں قید ہونا پڑا۔
اسی بات کو مرزا غالبؔ نے بھی یوں کہا ہے :۔
ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا


سولاں مار دیوانی کیتی، برہوں پیا خیال

تکلیفوں کی کثرت نے دیوانہ کر دیا ، اور جدائی کا ہی خیال میں رچ گئی


اس شعر کی حقیقی تشریح  غالب ؔ کا یہ مصرعہ  کرتا ہے 
ہوا جب غم سے یوں بے حس ، تو غم کیا سر کے کٹنے کا۔
تکالیف کی کثرت ، اور تسلسل سے دماغ یا تو بے حس ہو جاتا ہے  یا تاب نہ لا کر دیوانہ ہو جاتا ہے ۔
جیسا کہ غالبؔ  نے مزاح کے پردے میں یہی انسانی نفسیاتی نقطہ بیان کیا :۔
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں

جب اتنی کثرت سے درد یا تکلیف انسان برداشت کرے تو فطری طور پر اسے درد سے بھی انس ہو جاتا ہے ۔ اور یہی بات شاہ حسین ؒ نے کہی ہے کہ اس کثرت اور تسلسل سے آخر اب مجھے جدائی ، درد جدائی  سے بھی محبت سی ہو گئی ہے 
اور یہی وہ مقام ہے ، جب درد خود دوا ہوا جاتا ہے ۔ بقول غالب:۔ درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا


جنگل بیلے پھراں ڈھونڈیندی، اجے ناں پایو لال


جنگلوں ، بیلوں میں ڈھونڈتی پھری، لیکن ابھی تک گوہر مراد نہیں پایا


اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں انسان کی شہ رگ کے قریب ہوں ، میں انسان کے دل میں رہتا ہوں ۔ مگر انسان اسے جنگلوں اور ویرانوں میں ڈھونڈتا پھرتا ہے ۔
اسی بات پر طنز کرتے ہوئے شاہ حسینؒ  فرماتے ہیں کہ جنگلوں اور ویرانوں میں دھونڈتی پھرتی ہوں نجانے کب سے ، لیکن ابھی تک گوہر مراد ہاتھ نہیں آیا۔

بقول بھلے شاہ سرکار:۔ 
جے رب ملدا نہاتیاں دھوتیاں، تے رب ملدا ڈڈوؤاں مچھیاں نوں
جے رب ملدا جنگل پھریاں ، تے رب ملدا گایاں وچھیاں نوں 
(اگر رب نہانے دھونے سے ملتا تو پھر رب صرف مچھلیوں اور مینڈکوں کو ہی ملتا
اگر رب جنگل پھرنے سے ملتا تو رب گائے ، بیل ، اور دیگر جنگلی جانوروں کو ملتا)


دکھاں دی روٹی ، سولاں دا سالن، آہیں دا بالن بال

دکھوں کی روٹی ، تکالیف کا سالن ، اور آہوں کا ایندھن جلایا


اس میں راہ سلوک کی منزلیں، اس راہ میں پیش آنے والے مصائب کا ذکر کیا ہے اور بتانے کی کوشش کی ہے کہ اس راہ پہ نئے آنے والوں کو ان چیزوں کیلئے تیار ہو کر آنا چاہیے۔ کیونکہ اکثر ایسا ہی ہوتا ہے کہ راہ کی تکالیف اور مصائب سے اکثر لوگ بیچ راہ سے ہی لوٹ جاتے ہیں۔
اس راہ کیلئے زاد راہ بتائی گئی ہے ، کہ دکھوں کی روٹی کھانی پڑے گی ، اور سالن  تکالیف کا ہوگا ، جو تمہیں جدائی کے عالم میں آہوں کا ایندھن جلا کر خود ہی تیار کرنا پڑے گا۔کھانے پینے کی اشیا ء کےنام لکھنے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ جس طرح ہم رغبت سے خوراک یعنی روٹی اپنے پسندیدہ سالن کے ساتھ کھانا پسند کرتے ہیں ۔ اور اسے پھر ہضم کرکے جزو بدن بناتے ہیں ۔ ویسے ہی اس راہ  کے مصائب کو خوراک کی طرح اپنے اندر اتارنا اور ہضم کرنا ہی کامیابی کی کنجی ہے ۔ ورنہ سب بے کار اور بے فائدہ ہے۔



     دھواں دُکھے میرے مرشد والا

جاں پھولاں تے لال نی

میرے مرشد والا دھواں اٹھتا ہے، اور روح کے اندر جھانکوں تو سرخ ہے


صوفیا کرام کی اصطلاح میں دل میں مرشد کریم کی محبت پیدا کرنے کو "سائیں دا مَچ" کہتے ہیں ۔ "مَچ" کو اردو میں آگ کا الاؤ یا بھڑکتی آگ کہتے ہیں ۔

اس شعر میں شاہ حسین ؒ اپنی محبت کی تپش اور اس کی تابناکی کی کیفیت بیان کر رہے ہیں ، کہ یہ جو میرے منہ سے گرم آہیں نکلتی ہیں ، یہ در اصل میرے دل میں بھڑکتی عشق حقیقی کی آگ کا دھواں ہیں ۔ جو میرے دل میں میرے مرشد نے جلائی ہے۔ اور میری جان یا روح جل جل کے سرخ انگارہ ہو چکی ہے۔ جب میں نے اپنے اندر جھانک کے دیکھا تو میں نے اپنی روح کو یا جان کو سرخ پایا۔


رانجھن رانجھن پھراں ڈھوڈیندی

رانجھن میرے نال نی

میں محبوب (اللہ تعالی)  کو ڈھونڈتی پھرتی ہوں۔ جب کہ وہ تو میرے ساتھ ہی ہے


اس شعر میں شاعر نے اپنے مشاہدے کی بنا پر اس حقیقت سے پردہ اٹھایا ہے ، کہ اللہ تعالیٰ تو انسان کے دل میں اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب رہتا ہے ۔

اور نادان انسان اسے جنگلوں اور ویرانوں میں ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔
رانجھن میرے نال کہنے کا ایک مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے ، کہ جب اللہ تعالیٰ انسان کے دل میں بستا ہے ، تو بجائے کہ انسان اسے ڈھونڈنے جنگلوں میں نکل جائے ، انسانیت کی فلاح اور خدمت کرے ، یہی سوچ کر کہ جن کی بھلائی وہ کررہا ہے ، ان کے دل میں خدا بستا ہے ۔
حقوق العباد کی بہت تاکید ہے شریعت ظاہری میں بھی اور شریعتِ باطنی میں بھی ۔ 
مرزا غالبؔ کا بھی شعر ہے :۔
بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالبؔ
تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں
اور علامہ اقبال ؒ نے بھی بہت خوبصورت انداز میں سمجھایا ہے :۔
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا گیا انسان کو
ورنہ طاعت کو کچھ کم نہ تھے کرو بیاں


    
کہے حسین فقیر نمانا ، شوہ ملے تاں تھیواں نہال

بے چارا فقیر حسینؒ کہتا ہے ، شاہ(اللہ تعالیٰ) ملے گا تب  نہال ہونگا

اپنے درد جدائی کا ذکر کرنے کے بعد شاہ حسینؒ  فرماتے ہیں کہ جب اللہ کا قرب حاصل کر لوں گا ، تب نہال ہونگا، یا آرام میں آ جاؤں گا ۔ جدائی میں تو آرام یا چین و سکون کا خیال بھی محال ہے

Wednesday 9 January 2013

گھم وے چرخےآ گھم






گُھم وے چرخےیا گُھم
تیری کتن والی جیوے
نلیاں وٹن والی جیوے

گھوم اے چرخے گھوم
تجھے کاتنے والی (ہستی) کی خیر ہو
نلیاں (دھاگے کا گولا) بٹنے والی (ہستی) کی خیر ہو


یہ زمین بھی گول ہے ، چاند ، سورج بھی گول ہیں ، اس کے علاوہ تمام سیارے،  ستارے بھی گول ہیں، کہکشائیں بھی دائرے کی صورت ہیں
چونکہ یہ ساری کائنات ایک محور کے گرد گھوم رہی ہے ، اس لیے حضرت شاہ حسین ؒ نے اسے چرخے سے تشبیہ دے کر ، داد دینے والے انداز میں فرمایا ہے کہ گھوم اے چرخے گھوم
جو ذات واحد و لا شریک ذات تجھے کات (گھما) رہی ہے ، اس کی خیر ہو (یعنی اس کی عظمتوں کو سلام)
کائنات میں ہر دم ستارے ٹوٹنے،بجھنے اور نئے ستارے وجود میں آنے کا عمل جاری ہے ، اسے شاعر نے  نلیاں بٹنے سے تشبیہ دے کر ذات خدا وندی کی حمد کی ہے
  
بڈھا ہویوں شاہ حسینا
دندیں جھیراں پیاں
اٹھ سویرے ڈھونڈن لگوں
سنجھ دیاں جوگیاں

شاہ حسینؒ میاں !! اب تم بوڑھے ہو گئے ہو
دانت تمہارے سب ٹوٹ پھوٹ گئے ہیں
تم انہیں  صبح اٹھ کے ڈھونڈ رہے ہو
جو صبح صادق کے وقت ہی جا چکی ہیں


اس شعر میں حضرت شاہ حسین ؒ اپنے آپ سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں ، کہ شاہ حسین اب تم بوڑھے ہوتے جا رہے ہو
تمہاری آنکھ اب کھلی ہے جب عمر ساری گزر چکی ہے ۔ اس کی مثال یوں ہے کہ جو صبح صادق کے وقت جا چکے ہیں تم انہیں صبح کو سورج طلوع ہونے کے بعد ڈھونڈ رہے ہو،  یعنی وقت تو تم نے گنوا دیا ، اب بے فائدہ کوشش میں لگے ہو


ہر دم نام سنبھال سائیں دا
تاں توں استھر تھیویں

ہر دم مالک کے نام کا ذکر کرتے رہو
تب تم پاک ہو سکتے ہو

اس شعر میں  ذکر الہٰی کی فضلیت اور ترغیب دی ہے ، کہ بندے کو چاہیے وہ ہر وقت اپنے پروردگار کے نام کا ذکر کرتا رہے 
اسی سے روح کی کثافت اور بوجھ دور ہوگا ، اور روح کو غذا ملے گی ، اور وہ ذکر کی برکت سےگناہوں  کی سیاہی اور آلودگی سے  پاک صاف ہوتی جائے گی


چرخہ بولے سائیں سائیں
بائیڑ بولے گھوں
کہے حسین ؒفقیر سائیں دا
میں ناہیں سب توں

چرخہ سائیں سائیں بولتا ہے اور بائیڑ سے گھوں گھوں کی آواز آتی ہے
اپنے پروردگار کا فقیر شاہ حسین ؒ یہی کہتا ہے  کہ میں کچھ بھی نہیں سب کچھ تو ہے ۔

جب چرخہ کاتنے کیلئے گھمایا جاتا ہے، تو ہر چکر  پر اس سے سائیں سائیں جیسی آواز آتی ہے 
اور بائیڑ جس پر دھاگہ لپٹتا جا رہا ہوتا ہے ، اس سے گھوں گھوں کی آوازیں آتی ہیں 
اللہ والے فنافی اللہ کے مقام پر ہوتے ہیں اس لیے انہیں  دنیا کی ہر آواز ہر مظہر میں اللہ کے حسن کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔
اب ذات حق کے مشاہدے میں غرق ہو کر فقیر شاہ حسین اپنی ذات کی نفی کر کے کہتا ہے ، کہ میں کچھ بھی نہیں سب کچھ اللہ کی ذات ہے 

کچھ ایسا ہی مولانا روم ؒ کا بھی شعر ہے :۔
خشک تار و خشک چوب ، خشک پوست
از کجا می آید ایں آوازِ دوست

تار بھی خشک ہے ، لکڑی بھی خشک ہے ، اور کدو بھی خشک ہے
پھر یہ محبوب کی آواز کہاں سے آ رہی ہے

Tuesday 8 January 2013

میں وی جانا جھوک رانجھن دی





میں وی جانا، جھوک رانجھن دی


نال میرے کوئی چلے


میں نے بھی رانجھن کے گاؤں جانا ہے، کوئی تو میرے ساتھ چلے

صوفیا کی اصطلاح میں حسنِ مطلق اور محبوبِ حقیقی کیلئے "رانجھن" مستعمل ہے، جیسے کہ حضرت بابا بھلے شاہ سرکار ؒ  نے بھی ایک مصرعے میں فرمایا ہے" میرا رانجھن ہن کوئی ہور نی سیو"(سہیلیو! اب میرا محبوب کوئی اور ہے)
اور رانجھن دی جھوک جانے سے یہاں حضرت شاہ حسینؒ کی مراد موت ہے، کیونکہ صوفیا اللہ اور روح کے درمیان رکاوٹ زندگی کو قرار دیتے ہیں ، اور موت کو وصال کا پیغام اور آزادی کا پروانہ سمجھا جاتا ہے۔
جیسے کسی صوفی شاعر سے کسی نے پوچھا:۔ "عید ہوسی کڈن؟" (عید کب ہوگی؟)
اس اللہ کے بندے نے جواب دیا:۔ "یار ملسی جڈن"(جب یار ملے گا)
دوبارہ سوال ہوا:۔ "یار ملسی کڈن" (یار کب ملے گا)
جواب ملا:۔ "موت آسی جڈن"(جب موت آئے گی)
لہذا سمجھا جا سکتا ہے  کہ شاہ حسین ؒ نے ایک طرح سے اپنی دیدارِ یار کی خواہش کو بیان کیا ۔ اور ساتھ ہی انسانی فطرت کا ایک پہلو بھی بتا دیا ، کہ انسان اکیلے پن سے گھبراتا ہے ، اس لیے وہ کوئی ہم سفر ڈھونڈ رہے ہیں "نال میرے کوئی چلے" کہہ کر



پیریں پوندی، منتاں کردی


جانڑاں تاں پیا کلھے


پاؤں بھی پڑتی رہی ، اور منتیں بھی کرتی رہی، مگر آخرکار مجھے اکیلے ہی جانا پڑا


یہاں بھی زندگی کی ایک کڑوی سچائی بیان ہوئی ہے ، کہ انسان چاہے کتنا ہی ہر دلعزیز یا پیارا کیوں نہ ہو، ہر کسی کو اپنی موت آپ مرنا پڑتا ہے ، کوئی کسی کی آئی نہیں مرتا، اور نہ ہی روح کے اس سفر میں کوئی کسی کا ساتھ دے سکتا ہے۔انسان ساری زندگی اسی تگ ودو میں لگا رہتا ہے ، جسے پاؤں پڑنے اور منتیں کرنے سے تشبیہ دی گئی ہے، اور میرے خیال میں اس سے خوبصورت اور موزوں تشبیہ کوئی اور نہیں ہو سکتی۔انسان کو پتا ہی نہیں کہ وہ خواہ مخواہ میں پاؤں پڑنے اور منتیں کرنے کے بے فائدہ اور لاحاصل عمل میں الجھ کر اپنے اصل مقصد سے دور ہوتا جاتا ہے


نیں وی ڈونگھی، تُلہ پرانا


شینہاں پتن ملے


دریا بھی بہت گہرا ہے ، اور تُلہ بھی پرانا ہے(یعنی ناقابلِ اعتبار ہے)
اور ببر شیر دریا کے دوسرے کنارے (پتن) پر گھات لگائے بیٹھے ہیں

نیں دراصل سرائیکی میں گہری ندی کو کہا جاتا ہے ، میرے خیال میں اس سے مراد قبر ہے
کیونکہ قبر چھ فٹ گہرائی سے شروع ہوتی ہے، 
اس طرح اس کا مطلب بنے گا کہ قبر بہت گہری ہے ، اور انسانی جسم بہت ہی پرانا اور بوسیدہ ہے ، یعنی اس لحاظ سے ناقابلِ اعتبار ہے کہ نجانے یہ بوسیدہ جسم منزل تک پہنچنے کے سفر میں ساتھ دے پائے گا یا نہیں ۔اور ببر شیروں سے مراد منکر نکیر نامی دو فرشتے ہیں ، جو کہ قبر میں حساب کتاب کیلئے آتے ہیں اور احادیث شریف کے مطابق ان کی شکل انسان کے اعمال کے مطابق ہوگی ، یعنی نیک لوگوں کیلئے وہ خوبصورت پیکر میں آئیں گےاور برے لوگوں کیلئے ان کی صورت خوفناک اور دہشت ناک ہوگی۔
انسان ساری زندگی جسم پالنے میں لگا رہتا ہے اور یہ بھول جاتا ہے کہ جسم نے اسی دنیا میں رہ جانا ہے ، جبکہ اگلی دنیا کا سفر روح کو طے کرنا ہے، اور نادان بجائے روح کو مضبوط کرنے کے الٹا جسم کی فکر میں لگا رہتا ہے۔ اور اس بات سے بھی بے پرواہ ہے کہ محشر میں تو حساب کتاب ہونا ہے مگر قبر میں بھی حساب ہوگا


جے کوئی متراں دی خبر لے آوے


ہتھ دے ڈیندی آں چھلے


اگر کوئی محبوب کی خیر خبر لے آئے ، تو میں اسے اپنے ہاتھ کے چھلے تک دینے کو تیار ہوں 


یہ ایک اور نادر تشبیہ ہے، عورت کیلئے سب سے عزیز ترین متاع اس کا زیور ہوتا ہے ، اور یہاں اپنا زیور اسے دینے کی بات کی جارہی ہے جو محبوب کی خبر لا کر دے گا۔ یعنی کہ زیور سے بھی زیادہ اہم محبوب کا احوال اور اس کی خبر ہے۔
اس سے دو چیزیں ثابت ہوتی ہیں ۔ ایک تو محبوب کی تلاش اور اس کی خیر خبر رکھنا کتنا لازمی ہے ، جس کیلئے اپنے ہاتھ میں پہنے چھلے تک دئیے جا سکتے ہیں 
اور دوسری آپ خود سوچ سکتے ہیں ، میں نے لکھ دی تو مجھ پر لعن طعن شروع ہو جائے گی


رانجھن یار طبیب سُنیدا


مین تن درد ، اولے


ایک رانجھن نام کے طبیب کی مشہوری سنی ہے
میرے جسم میں بھی عجیب و غریب درد ہیں

اس شعر میں وہی بات ہوئی ہے جو غالبؔ نے" ڈبویا مجھ کو ہونے نے" میں بیان کی ہے
کہ عشق کے مریض کا علاج صرف ا ور صرف محبوب سے وصال ہے، جدائی اور دوری درد کو بڑھا دیتے ہیں


کہے حسین فقیر نمانا


سائیں سنیہوڑے گھلے


بے چارا حسینؒ کہتا ہے ، کہ اب سائیں (مالک) بلاوا بھیجے


اس شعر میں بھی اسی خواہش کا اظہار ہوا ہے۔ کہ اب مالک ہمیں اپنے پاس بلا لے، کہ یہ جدائی کا درد سہنا مشکل سے مشکل ہوتا  جا رہا ہے
اور اب مزید یہ درد سہنے کی طاقت نہیں رہی




Saturday 5 January 2013

ڈوہڑہ




شاکر شجاع آبادی



بے وزنے ہیں تیڈی مرضی اے، بھانویں پا وچ پا، بھانویں سیر وچ پا

پا کہیں دشمن دی فوتگی تے، یا جھمر دے کہیں پھیر وچ پا

پا چن دی چٹی چاندنی وچ، یا رات دے سخت ہنیر وچ پا

 راہ رلدے شاکر کنگن ہیں ، بھانویں ہتھ وچ پا، بھانویں پیر وچ پا 

کلام خواجہ سائیں






کلام حضرت خواجہ غلام فرید سائیں رحمتہ اللہ علیہ


ہن تھی فریدا شاد ول
مونجھیں کوں نہ کر یاد ول

جھوکاں تھیسن آباد ول
اے نیں نہ واہسی ہک منڑی
 
سرائیکی وسیب - ،، اساں بہوں تھوریت ہیں جناب ذوالقرنین سرور سائیں دے