ہن تھی فریدا شاد ول جھوکاں تھیسن آباد ول
Pak Urdu Installer

Saturday 12 January 2013

مائے نی میں کنوں آکھاں





مائے نی میں کنوں آکھاں، درد وچھوڑے دا حال

اے ماں !!  میں اپنے دردِ جدائی کا احوال کس سے کہوں


انسان کی فطرت ہے کہ اسے جب کوئی درد یا تکلیف ہو تو وہ لاشعوری طور پر ماں کو ہی پکارتا ہے ۔ اس میں عمر کی کوئی قید نہیں ۔ بچہ ہو یا بڑا ، چاہے بوڑھا بھی ہو ، اس کے منہ غیر اختیاری طور پر "ہائے اماں" "اوئی ماں"  کے الفاظ ہی نکلتے ہیں 
یہ الفاظ بھی اسی  انسانی  فطرت، اور نفسیات کے آئینہ دار ہیں  ، 
درد جدائی سے صوفیا کرام روح کی اپنے مبدا سے جدائی کو کو قرار دیتے ہیں ، جس میں روح کو اپنے مبدا سے جدا کر ، پہلے عالم ارواح ، پھر اس دنیا میں انسانی جسم میں قید ہونا پڑا۔
اسی بات کو مرزا غالبؔ نے بھی یوں کہا ہے :۔
ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا


سولاں مار دیوانی کیتی، برہوں پیا خیال

تکلیفوں کی کثرت نے دیوانہ کر دیا ، اور جدائی کا ہی خیال میں رچ گئی


اس شعر کی حقیقی تشریح  غالب ؔ کا یہ مصرعہ  کرتا ہے 
ہوا جب غم سے یوں بے حس ، تو غم کیا سر کے کٹنے کا۔
تکالیف کی کثرت ، اور تسلسل سے دماغ یا تو بے حس ہو جاتا ہے  یا تاب نہ لا کر دیوانہ ہو جاتا ہے ۔
جیسا کہ غالبؔ  نے مزاح کے پردے میں یہی انسانی نفسیاتی نقطہ بیان کیا :۔
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں

جب اتنی کثرت سے درد یا تکلیف انسان برداشت کرے تو فطری طور پر اسے درد سے بھی انس ہو جاتا ہے ۔ اور یہی بات شاہ حسین ؒ نے کہی ہے کہ اس کثرت اور تسلسل سے آخر اب مجھے جدائی ، درد جدائی  سے بھی محبت سی ہو گئی ہے 
اور یہی وہ مقام ہے ، جب درد خود دوا ہوا جاتا ہے ۔ بقول غالب:۔ درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا


جنگل بیلے پھراں ڈھونڈیندی، اجے ناں پایو لال


جنگلوں ، بیلوں میں ڈھونڈتی پھری، لیکن ابھی تک گوہر مراد نہیں پایا


اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں انسان کی شہ رگ کے قریب ہوں ، میں انسان کے دل میں رہتا ہوں ۔ مگر انسان اسے جنگلوں اور ویرانوں میں ڈھونڈتا پھرتا ہے ۔
اسی بات پر طنز کرتے ہوئے شاہ حسینؒ  فرماتے ہیں کہ جنگلوں اور ویرانوں میں دھونڈتی پھرتی ہوں نجانے کب سے ، لیکن ابھی تک گوہر مراد ہاتھ نہیں آیا۔

بقول بھلے شاہ سرکار:۔ 
جے رب ملدا نہاتیاں دھوتیاں، تے رب ملدا ڈڈوؤاں مچھیاں نوں
جے رب ملدا جنگل پھریاں ، تے رب ملدا گایاں وچھیاں نوں 
(اگر رب نہانے دھونے سے ملتا تو پھر رب صرف مچھلیوں اور مینڈکوں کو ہی ملتا
اگر رب جنگل پھرنے سے ملتا تو رب گائے ، بیل ، اور دیگر جنگلی جانوروں کو ملتا)


دکھاں دی روٹی ، سولاں دا سالن، آہیں دا بالن بال

دکھوں کی روٹی ، تکالیف کا سالن ، اور آہوں کا ایندھن جلایا


اس میں راہ سلوک کی منزلیں، اس راہ میں پیش آنے والے مصائب کا ذکر کیا ہے اور بتانے کی کوشش کی ہے کہ اس راہ پہ نئے آنے والوں کو ان چیزوں کیلئے تیار ہو کر آنا چاہیے۔ کیونکہ اکثر ایسا ہی ہوتا ہے کہ راہ کی تکالیف اور مصائب سے اکثر لوگ بیچ راہ سے ہی لوٹ جاتے ہیں۔
اس راہ کیلئے زاد راہ بتائی گئی ہے ، کہ دکھوں کی روٹی کھانی پڑے گی ، اور سالن  تکالیف کا ہوگا ، جو تمہیں جدائی کے عالم میں آہوں کا ایندھن جلا کر خود ہی تیار کرنا پڑے گا۔کھانے پینے کی اشیا ء کےنام لکھنے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ جس طرح ہم رغبت سے خوراک یعنی روٹی اپنے پسندیدہ سالن کے ساتھ کھانا پسند کرتے ہیں ۔ اور اسے پھر ہضم کرکے جزو بدن بناتے ہیں ۔ ویسے ہی اس راہ  کے مصائب کو خوراک کی طرح اپنے اندر اتارنا اور ہضم کرنا ہی کامیابی کی کنجی ہے ۔ ورنہ سب بے کار اور بے فائدہ ہے۔



     دھواں دُکھے میرے مرشد والا

جاں پھولاں تے لال نی

میرے مرشد والا دھواں اٹھتا ہے، اور روح کے اندر جھانکوں تو سرخ ہے


صوفیا کرام کی اصطلاح میں دل میں مرشد کریم کی محبت پیدا کرنے کو "سائیں دا مَچ" کہتے ہیں ۔ "مَچ" کو اردو میں آگ کا الاؤ یا بھڑکتی آگ کہتے ہیں ۔

اس شعر میں شاہ حسین ؒ اپنی محبت کی تپش اور اس کی تابناکی کی کیفیت بیان کر رہے ہیں ، کہ یہ جو میرے منہ سے گرم آہیں نکلتی ہیں ، یہ در اصل میرے دل میں بھڑکتی عشق حقیقی کی آگ کا دھواں ہیں ۔ جو میرے دل میں میرے مرشد نے جلائی ہے۔ اور میری جان یا روح جل جل کے سرخ انگارہ ہو چکی ہے۔ جب میں نے اپنے اندر جھانک کے دیکھا تو میں نے اپنی روح کو یا جان کو سرخ پایا۔


رانجھن رانجھن پھراں ڈھوڈیندی

رانجھن میرے نال نی

میں محبوب (اللہ تعالی)  کو ڈھونڈتی پھرتی ہوں۔ جب کہ وہ تو میرے ساتھ ہی ہے


اس شعر میں شاعر نے اپنے مشاہدے کی بنا پر اس حقیقت سے پردہ اٹھایا ہے ، کہ اللہ تعالیٰ تو انسان کے دل میں اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب رہتا ہے ۔

اور نادان انسان اسے جنگلوں اور ویرانوں میں ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔
رانجھن میرے نال کہنے کا ایک مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے ، کہ جب اللہ تعالیٰ انسان کے دل میں بستا ہے ، تو بجائے کہ انسان اسے ڈھونڈنے جنگلوں میں نکل جائے ، انسانیت کی فلاح اور خدمت کرے ، یہی سوچ کر کہ جن کی بھلائی وہ کررہا ہے ، ان کے دل میں خدا بستا ہے ۔
حقوق العباد کی بہت تاکید ہے شریعت ظاہری میں بھی اور شریعتِ باطنی میں بھی ۔ 
مرزا غالبؔ کا بھی شعر ہے :۔
بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالبؔ
تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں
اور علامہ اقبال ؒ نے بھی بہت خوبصورت انداز میں سمجھایا ہے :۔
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا گیا انسان کو
ورنہ طاعت کو کچھ کم نہ تھے کرو بیاں


    
کہے حسین فقیر نمانا ، شوہ ملے تاں تھیواں نہال

بے چارا فقیر حسینؒ کہتا ہے ، شاہ(اللہ تعالیٰ) ملے گا تب  نہال ہونگا

اپنے درد جدائی کا ذکر کرنے کے بعد شاہ حسینؒ  فرماتے ہیں کہ جب اللہ کا قرب حاصل کر لوں گا ، تب نہال ہونگا، یا آرام میں آ جاؤں گا ۔ جدائی میں تو آرام یا چین و سکون کا خیال بھی محال ہے

Wednesday 9 January 2013

گھم وے چرخےآ گھم






گُھم وے چرخےیا گُھم
تیری کتن والی جیوے
نلیاں وٹن والی جیوے

گھوم اے چرخے گھوم
تجھے کاتنے والی (ہستی) کی خیر ہو
نلیاں (دھاگے کا گولا) بٹنے والی (ہستی) کی خیر ہو


یہ زمین بھی گول ہے ، چاند ، سورج بھی گول ہیں ، اس کے علاوہ تمام سیارے،  ستارے بھی گول ہیں، کہکشائیں بھی دائرے کی صورت ہیں
چونکہ یہ ساری کائنات ایک محور کے گرد گھوم رہی ہے ، اس لیے حضرت شاہ حسین ؒ نے اسے چرخے سے تشبیہ دے کر ، داد دینے والے انداز میں فرمایا ہے کہ گھوم اے چرخے گھوم
جو ذات واحد و لا شریک ذات تجھے کات (گھما) رہی ہے ، اس کی خیر ہو (یعنی اس کی عظمتوں کو سلام)
کائنات میں ہر دم ستارے ٹوٹنے،بجھنے اور نئے ستارے وجود میں آنے کا عمل جاری ہے ، اسے شاعر نے  نلیاں بٹنے سے تشبیہ دے کر ذات خدا وندی کی حمد کی ہے
  
بڈھا ہویوں شاہ حسینا
دندیں جھیراں پیاں
اٹھ سویرے ڈھونڈن لگوں
سنجھ دیاں جوگیاں

شاہ حسینؒ میاں !! اب تم بوڑھے ہو گئے ہو
دانت تمہارے سب ٹوٹ پھوٹ گئے ہیں
تم انہیں  صبح اٹھ کے ڈھونڈ رہے ہو
جو صبح صادق کے وقت ہی جا چکی ہیں


اس شعر میں حضرت شاہ حسین ؒ اپنے آپ سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں ، کہ شاہ حسین اب تم بوڑھے ہوتے جا رہے ہو
تمہاری آنکھ اب کھلی ہے جب عمر ساری گزر چکی ہے ۔ اس کی مثال یوں ہے کہ جو صبح صادق کے وقت جا چکے ہیں تم انہیں صبح کو سورج طلوع ہونے کے بعد ڈھونڈ رہے ہو،  یعنی وقت تو تم نے گنوا دیا ، اب بے فائدہ کوشش میں لگے ہو


ہر دم نام سنبھال سائیں دا
تاں توں استھر تھیویں

ہر دم مالک کے نام کا ذکر کرتے رہو
تب تم پاک ہو سکتے ہو

اس شعر میں  ذکر الہٰی کی فضلیت اور ترغیب دی ہے ، کہ بندے کو چاہیے وہ ہر وقت اپنے پروردگار کے نام کا ذکر کرتا رہے 
اسی سے روح کی کثافت اور بوجھ دور ہوگا ، اور روح کو غذا ملے گی ، اور وہ ذکر کی برکت سےگناہوں  کی سیاہی اور آلودگی سے  پاک صاف ہوتی جائے گی


چرخہ بولے سائیں سائیں
بائیڑ بولے گھوں
کہے حسین ؒفقیر سائیں دا
میں ناہیں سب توں

چرخہ سائیں سائیں بولتا ہے اور بائیڑ سے گھوں گھوں کی آواز آتی ہے
اپنے پروردگار کا فقیر شاہ حسین ؒ یہی کہتا ہے  کہ میں کچھ بھی نہیں سب کچھ تو ہے ۔

جب چرخہ کاتنے کیلئے گھمایا جاتا ہے، تو ہر چکر  پر اس سے سائیں سائیں جیسی آواز آتی ہے 
اور بائیڑ جس پر دھاگہ لپٹتا جا رہا ہوتا ہے ، اس سے گھوں گھوں کی آوازیں آتی ہیں 
اللہ والے فنافی اللہ کے مقام پر ہوتے ہیں اس لیے انہیں  دنیا کی ہر آواز ہر مظہر میں اللہ کے حسن کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔
اب ذات حق کے مشاہدے میں غرق ہو کر فقیر شاہ حسین اپنی ذات کی نفی کر کے کہتا ہے ، کہ میں کچھ بھی نہیں سب کچھ اللہ کی ذات ہے 

کچھ ایسا ہی مولانا روم ؒ کا بھی شعر ہے :۔
خشک تار و خشک چوب ، خشک پوست
از کجا می آید ایں آوازِ دوست

تار بھی خشک ہے ، لکڑی بھی خشک ہے ، اور کدو بھی خشک ہے
پھر یہ محبوب کی آواز کہاں سے آ رہی ہے

Tuesday 8 January 2013

میں وی جانا جھوک رانجھن دی





میں وی جانا، جھوک رانجھن دی


نال میرے کوئی چلے


میں نے بھی رانجھن کے گاؤں جانا ہے، کوئی تو میرے ساتھ چلے

صوفیا کی اصطلاح میں حسنِ مطلق اور محبوبِ حقیقی کیلئے "رانجھن" مستعمل ہے، جیسے کہ حضرت بابا بھلے شاہ سرکار ؒ  نے بھی ایک مصرعے میں فرمایا ہے" میرا رانجھن ہن کوئی ہور نی سیو"(سہیلیو! اب میرا محبوب کوئی اور ہے)
اور رانجھن دی جھوک جانے سے یہاں حضرت شاہ حسینؒ کی مراد موت ہے، کیونکہ صوفیا اللہ اور روح کے درمیان رکاوٹ زندگی کو قرار دیتے ہیں ، اور موت کو وصال کا پیغام اور آزادی کا پروانہ سمجھا جاتا ہے۔
جیسے کسی صوفی شاعر سے کسی نے پوچھا:۔ "عید ہوسی کڈن؟" (عید کب ہوگی؟)
اس اللہ کے بندے نے جواب دیا:۔ "یار ملسی جڈن"(جب یار ملے گا)
دوبارہ سوال ہوا:۔ "یار ملسی کڈن" (یار کب ملے گا)
جواب ملا:۔ "موت آسی جڈن"(جب موت آئے گی)
لہذا سمجھا جا سکتا ہے  کہ شاہ حسین ؒ نے ایک طرح سے اپنی دیدارِ یار کی خواہش کو بیان کیا ۔ اور ساتھ ہی انسانی فطرت کا ایک پہلو بھی بتا دیا ، کہ انسان اکیلے پن سے گھبراتا ہے ، اس لیے وہ کوئی ہم سفر ڈھونڈ رہے ہیں "نال میرے کوئی چلے" کہہ کر



پیریں پوندی، منتاں کردی


جانڑاں تاں پیا کلھے


پاؤں بھی پڑتی رہی ، اور منتیں بھی کرتی رہی، مگر آخرکار مجھے اکیلے ہی جانا پڑا


یہاں بھی زندگی کی ایک کڑوی سچائی بیان ہوئی ہے ، کہ انسان چاہے کتنا ہی ہر دلعزیز یا پیارا کیوں نہ ہو، ہر کسی کو اپنی موت آپ مرنا پڑتا ہے ، کوئی کسی کی آئی نہیں مرتا، اور نہ ہی روح کے اس سفر میں کوئی کسی کا ساتھ دے سکتا ہے۔انسان ساری زندگی اسی تگ ودو میں لگا رہتا ہے ، جسے پاؤں پڑنے اور منتیں کرنے سے تشبیہ دی گئی ہے، اور میرے خیال میں اس سے خوبصورت اور موزوں تشبیہ کوئی اور نہیں ہو سکتی۔انسان کو پتا ہی نہیں کہ وہ خواہ مخواہ میں پاؤں پڑنے اور منتیں کرنے کے بے فائدہ اور لاحاصل عمل میں الجھ کر اپنے اصل مقصد سے دور ہوتا جاتا ہے


نیں وی ڈونگھی، تُلہ پرانا


شینہاں پتن ملے


دریا بھی بہت گہرا ہے ، اور تُلہ بھی پرانا ہے(یعنی ناقابلِ اعتبار ہے)
اور ببر شیر دریا کے دوسرے کنارے (پتن) پر گھات لگائے بیٹھے ہیں

نیں دراصل سرائیکی میں گہری ندی کو کہا جاتا ہے ، میرے خیال میں اس سے مراد قبر ہے
کیونکہ قبر چھ فٹ گہرائی سے شروع ہوتی ہے، 
اس طرح اس کا مطلب بنے گا کہ قبر بہت گہری ہے ، اور انسانی جسم بہت ہی پرانا اور بوسیدہ ہے ، یعنی اس لحاظ سے ناقابلِ اعتبار ہے کہ نجانے یہ بوسیدہ جسم منزل تک پہنچنے کے سفر میں ساتھ دے پائے گا یا نہیں ۔اور ببر شیروں سے مراد منکر نکیر نامی دو فرشتے ہیں ، جو کہ قبر میں حساب کتاب کیلئے آتے ہیں اور احادیث شریف کے مطابق ان کی شکل انسان کے اعمال کے مطابق ہوگی ، یعنی نیک لوگوں کیلئے وہ خوبصورت پیکر میں آئیں گےاور برے لوگوں کیلئے ان کی صورت خوفناک اور دہشت ناک ہوگی۔
انسان ساری زندگی جسم پالنے میں لگا رہتا ہے اور یہ بھول جاتا ہے کہ جسم نے اسی دنیا میں رہ جانا ہے ، جبکہ اگلی دنیا کا سفر روح کو طے کرنا ہے، اور نادان بجائے روح کو مضبوط کرنے کے الٹا جسم کی فکر میں لگا رہتا ہے۔ اور اس بات سے بھی بے پرواہ ہے کہ محشر میں تو حساب کتاب ہونا ہے مگر قبر میں بھی حساب ہوگا


جے کوئی متراں دی خبر لے آوے


ہتھ دے ڈیندی آں چھلے


اگر کوئی محبوب کی خیر خبر لے آئے ، تو میں اسے اپنے ہاتھ کے چھلے تک دینے کو تیار ہوں 


یہ ایک اور نادر تشبیہ ہے، عورت کیلئے سب سے عزیز ترین متاع اس کا زیور ہوتا ہے ، اور یہاں اپنا زیور اسے دینے کی بات کی جارہی ہے جو محبوب کی خبر لا کر دے گا۔ یعنی کہ زیور سے بھی زیادہ اہم محبوب کا احوال اور اس کی خبر ہے۔
اس سے دو چیزیں ثابت ہوتی ہیں ۔ ایک تو محبوب کی تلاش اور اس کی خیر خبر رکھنا کتنا لازمی ہے ، جس کیلئے اپنے ہاتھ میں پہنے چھلے تک دئیے جا سکتے ہیں 
اور دوسری آپ خود سوچ سکتے ہیں ، میں نے لکھ دی تو مجھ پر لعن طعن شروع ہو جائے گی


رانجھن یار طبیب سُنیدا


مین تن درد ، اولے


ایک رانجھن نام کے طبیب کی مشہوری سنی ہے
میرے جسم میں بھی عجیب و غریب درد ہیں

اس شعر میں وہی بات ہوئی ہے جو غالبؔ نے" ڈبویا مجھ کو ہونے نے" میں بیان کی ہے
کہ عشق کے مریض کا علاج صرف ا ور صرف محبوب سے وصال ہے، جدائی اور دوری درد کو بڑھا دیتے ہیں


کہے حسین فقیر نمانا


سائیں سنیہوڑے گھلے


بے چارا حسینؒ کہتا ہے ، کہ اب سائیں (مالک) بلاوا بھیجے


اس شعر میں بھی اسی خواہش کا اظہار ہوا ہے۔ کہ اب مالک ہمیں اپنے پاس بلا لے، کہ یہ جدائی کا درد سہنا مشکل سے مشکل ہوتا  جا رہا ہے
اور اب مزید یہ درد سہنے کی طاقت نہیں رہی




Saturday 5 January 2013

ڈوہڑہ




شاکر شجاع آبادی



بے وزنے ہیں تیڈی مرضی اے، بھانویں پا وچ پا، بھانویں سیر وچ پا

پا کہیں دشمن دی فوتگی تے، یا جھمر دے کہیں پھیر وچ پا

پا چن دی چٹی چاندنی وچ، یا رات دے سخت ہنیر وچ پا

 راہ رلدے شاکر کنگن ہیں ، بھانویں ہتھ وچ پا، بھانویں پیر وچ پا 

کلام خواجہ سائیں






کلام حضرت خواجہ غلام فرید سائیں رحمتہ اللہ علیہ


ہن تھی فریدا شاد ول
مونجھیں کوں نہ کر یاد ول

جھوکاں تھیسن آباد ول
اے نیں نہ واہسی ہک منڑی
 
سرائیکی وسیب - ،، اساں بہوں تھوریت ہیں جناب ذوالقرنین سرور سائیں دے